دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
گرومنگ کیا ہے؟ کون لوگ کرتے ہیں، کیسے کرتے ہیں؟
No image اس نسل کے والدین اور موجودہ نسل کو خود اس بات کا علم ہونا ضروری ہے کہ گرومنگ کیا ہے، کون لوگ کرتے ہیں، کیسے کرتے ہیں، ان کا شکار کون اور کیوں بنتے ہیں. انگریزی زبان میں لڑکے اور نوکر کے لیے ایک لفظ استعمال ہوتا تھا جسے گروم "Groom" کہا جاتا تھا.بعد ازاں گھوڑوں کی دیکھ بھال کرنے اور انہیں سدھانے والے کو بھی گروم کہا جانے لگا،اور پھر دولہا کے لیے بھی گروم کا لفظ استعمال ہونے لگا.
لفظ وہی رہا مگر مقام بدلنے سے اس کی معنویت میں فرق آتا گیا.
گروم سے grooming گرومنگ بنا جس کا مطلب تھا، حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق اپنا خیال رکھنا، ناخن، بالوں اور جلد کی دیکھ بھال کرنا، کپڑوں کے اوپر سے گرد جھاڑنا، گھوڑوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے ان کے بالوں میں برش پھیرنا وغیرہ وغیرہ.
یہ سب تو گرومنگ کے مثبت معنی ہیں مگر گرومنگ کا معنی منفی بلکہ ایک پہلو شرمناک بھی ہے.
ایسے گھاگ افراد جو کم عمر بچوں، نوجوان لڑکوں، لڑکیوں، نابالغ یا بالغ افراد کو انٹرنیٹ پر یا گھروں، پارک، کھیل کے میدانوں یا تعلیمی اداروں وغیرہ میں گھیر کر ان کا جنسی استحصال کرنے کے لیے کسی بھی طرح کے حربے یا طریقے استعمال کرتے ہیں انہیں بھی اصطلاحاً گرومنگ grooming کہا جانے لگا, اور پھانسنے والے کو گرومر Groomer.
اس نسل کے والدین اور موجودہ نسل کو خود اس بات کا علم ہونا ضروری ہے کہ گرومنگ کیا ہے، کون لوگ کرتے ہیں، کیسے کرتے ہیں، ان کا شکار کون اور کیوں بنتے ہیں.
گرومنگ کرنے والے افراد بچوں کے انتہائی قریبی، جاننے والے اور بعض صورتوں میں اجنبی لوگ بھی ہوسکتے ہیں.
جس طرح کسی بھی چیز کا خلا اس کے قریب ترین والی چیز خود بخود پر کر لیتی ہے ویسے ہی اچھائی کا خلا برائی خود بخود پر کر لیتی ہے.
گرومنگ کا شکار ہونے والے بچوں میں ایک خلا محرومی کا ہوتا ہے جو گھر اور سماج کا پیدا کردہ ہوتا ہے ، یہ خلا محبت، توجہ اور ہمدردی کی کمی کا ہوتا ہے جسے گرومنگ کرنے والے تاڑ لیتے ہیں اور شکار کو گھیر لیتے ہیں.
والدین کے دوست، رشتہ دار، دوکاندار، استاد ،معلم، ڈرائیور یا دیگر ایسے لوگ جو بچوں سے بلا روک ٹوک مل سکیں وہی ان کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں.
وہ سب سے پہلے بچے کی محرومی کو جانچتے ہیں. ذہنی و جسمانی طور پر معذور بچے، آٹزم کا شکار یا پھر ایسے صحتمند بچے، جو کسی بھی جسمانی یا جذباتی کمزوری کے تحت ردعمل نہ دے سکتے ہوں یا پھر کم رد عمل دینے والے ہوں، گرومر Groomer ان کی دکھتی رگ کو پکڑ کر بچے کو کبھی چاکلیٹ، آئس کریم، ٹافی، پسندیدہ کھلونا، کتابیں دینے لگتے ہیں، یا پھر انہیں گھمانے پھرانے، فلم دکھانے، گاڑی میں جھولا دینے، کہانیاں سنانے، یا دیگر کوئی بھی ایسا کام کرتے ہیں جس سے بچے کے اندر ہمدردی کا اظہار کرکے اسکا اعتماد حاصل کیا جاسکے.
اس کے بعد بچے کو غیر محسوس طریقے سے گھر والوں سے دور کرکے زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ رکھنا، تنہائی میں رکھنا اور اسے باور کرانا کہ وہ اس کے لیے سب کچھ کر سکتا ہے، اسے اس کی سب سے پسندیدہ اور مہنگی ترین چیز دلا سکتا ہے ، بعد میں بچہ جب اچھی طرح مانوس ہوجائے تو پھر آہستہ آہستہ اس کا ہاتھ دبانا، اس کی ران پر ہاتھ رکھنا، گالوں پر چٹکیاں لینا، گلے لگانا، یا کسی کھیل کود کے دوران بار بار کولہوں اور پیٹھ پر ہاتھ لگانا.
بچہ جب اس لمس کا ردعمل دینا ترک کردیتا ہے اور یہ سب معمول کی باتیں سمجھ کر قبول کرنے لگتا ہے تو پھر تنہائی میں اسے جنسی جذبات ابھارنے والی تصاویر یا ویڈیو دکھانا، پھر پیار سے، غصے سے، یا کسی بھی دھمکی سے بلیک میل کرکے اس کے ساتھ زیادتی کرنا.
اور اس کے بعد مزید جذباتی وار کرتے ہوئے معافی مانگ لینا کہ میں تمھارے پیار میں بہک گیا تھا، اب کسی کو بتانا نہیں، ورنہ کوئی بھی تم پر یقین نہیں کرے گا، الٹا لوگ تمھیں ڈانٹیں گے، ماریں گے، طنز کا نشانہ بنائیں گے وغیرہ وغیرہ.
گرومنگ کا شکار ہونے والے بچوں کا مسئلہ ان کے گھر سے شروع ہوتا ہے، والدین پیار یا توجہ نہیں دیتے، انہیں خود آگاہی نہیں ہوتی وہ مہمانوں یا اجنبیوں کے سامنے بچے کو اپنی گود میں بٹھا کر پیار کریں گے پھر زبردستی کہیں گے جاؤ انکل کو ملو انہیں " مِٹھی" پیار کرو، تو اس جیسے تمام رویوں سے بچے کے شعور میں یہ بات جڑ پکڑ لیتی ہے کہ کسی کی گود میں بیٹھنا یا کسی کو پیار دینا، لینا یہ سب نارمل یا معمول کی باتیں ہیں.
والدین نہ تو خود "گڈ ٹچ، بیڈ ٹچ" سے واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی بچے کو سکھاتے ہیں
. نہ ہی اس طرح کی تعلیم کا رواج ہے جس میں کھلی بات چیت کا ماحول بنایا گیا جائے، بچوں کی کو اعتماد میں لے کر انہیں ان کی حدود و قیود سے آگاہ کیا جائے، بچوں کو بتایا جائے کہ صحتمند تعلقات کون سے ہیں،
ان سب کے نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ اچھی بری ہر طرح کی تمیز کھو بیٹھتا ہے، جس میں پہلے ہی اعتماد کی کمی ہو، وہ جنسی استحصال کے بعد مزید خوفزدہ ہوجاتا ہے، وہ شرمندگی کے مارے خود کو قصور وار ٹھہراتا ہے، اور اس فعل کے متعلق بتاتے ہوئے گھبراتا ہے.
کم سنی اور معصومیت کے باعث اسے یا تو دھمکیوں کا خوف ہوتا ہے یا پھر اس بات کا خوف کہ اگر اپنے، دوست، انکل یا رشتہ کو "نہ" کردی تو میں محبت سے بھی اور کھلونوں سمیت جو چیزیں مل رہی ہیں ان سے محروم ہوجاؤں گا.
محبت، خوف، لالچ اور آگاہی کا فقدان انہیں گرومنگ کا شکار بننے اور استحصال ہونے تک لے جاتا ہے۔
واپس کریں