دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دل کی پالش۔سنڈے اسپیشل
No image پرسوں میں گھر کی اشیاۓ صرف خریدنے گیا۔ میرا بیٹا بھی ساتھ تھا۔ اس نے شو پالش کی ڈبیہ اٹھاٸی، الٹا پلٹا کر دیکھا اور بولا”پاپا یہ پالش کیوں کرتے ہیں، کیوں ضروری ہے“اسکا یہ سوال سن کر میں نے سادے لفظوں میں تشریح کردی۔ لیکن یہ سوال میرے ذہن میں اٹکا رہا۔ پھر نے تحقیق کی۔ عجب عجب تخیلات ابھرتے رہے اور آخر میں مجھے قرآن و حدیث میں پالش کا ایک تصور دکھاٸی دیا جسے دیکھ کر، پڑھ کر، سوچ کر میں حیران رہ گیا اور دل نے مجبور کیا کہ یہ مختصر تحقیق آپکے سامنے رکھوں۔ ملاحظہ فرماٸیں۔
ہماری روز مرہ کی تقریباً تمام اشیا میں پالش استعمال کی جاتی ہےاسے عربی میں صِقَالَةٌ ([یہ معنی ضرور یاد رکھیں]) کہتے ہیں۔پالش دراصل ایک بیرونی حفاظتی لٸیر ہوتی ہے جو اشیا صرف کو دیر پااور موسمی اثرات سے محفوظ رکھنے کیلیے کی جاتی ہے۔
معلوم تاریخ میں 14 صدی عیسوی میں فرنیچر پر پالش کا استعمال شروع ہواتھا جبکہ 1554 عیسوی میں یہ فرش اور چھتوں کیلیے استعمال ہوتی تھی۔ 1800 عیسوی کے اواٸل میں یہ جوتوں کیلیے اور فرنیچر کیلیے استعمال ہونا شروع ہوٸی۔ اُس زمانہ میں جب پالش کی جاتی تو اشیا کی رنگت یا خوشنماٸی ماند پڑجاتی تھی۔ چنانچہ اس پالش میں چمک اور خوشنماٸی کیلیے کیمیاٸی تبدیلیاں کی گٸی۔ اب جب پالش کی جاتی ہے تو چیز چمکدار اور خوبصورت ہوجاتی ہے۔ جیسے فرنیچرہے، جوتے ہیں، دروازے کھڑکیاں ہیں، حتیٰ کہ مکان کی دیواروں پر کیے جانے والا پینٹ بھی پالش کی ہی شکل ہے۔
اسوقت کوٸی بھی اشیاۓ صرف چاہے مٹی کی ہو، سونے چاندی کی ہو، لکڑی کی ہو،یا پلاسثک براس وغیرہ کوٸی بھی چیز ایسی نہیں جو بغیر پالش کے استعمال ہوتی ہو۔
ان تمام اشیا میں لوہے ایک ایسی جنس ہے جسمیں پالش کا مقصد خوشنماٸی کے علاوہ اسے زنگ سے بچانا بھی ہوتاہے۔
یہ تمام اشیا تو وہ ہیں جو ہمارے جسم کا حصہ نہیں ہے۔ ہم اپنے وجود کیلیے بھی مختم قسم کی پالش استعمال کرتے ہیں، جیسے بالوں کیلیے، ہاتھ منہ کیلیے، بدن کیلیے اور دانتوں کیلیے بھی۔
اسکے لیے اربوں روپے کی انڈسٹری ہے جو ہمارے جسم کیلیے مختلف انواع و اقسام کی پالشیں تیار کرتی ہے۔ تاکہ جلد مانند نہ پڑجاۓ موسمی اور بیرونی اثرات سےجسم کو نقصان نہ پہنچے۔
احباب گرامی!
کیا آپ جانتے ہیں ہمارے جسم کےاندر بھی ایک آلہ موجود ہے جس کیلیے پالش کی ضرورت ہے؟؟؟
جی بالکل ہمارے جسم میں سب سے اہم عضو ”دل“ کو بھی پالش کی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ دل کو زنگ لگ جاتا ہے۔
ہمارے خالق ذوالجلال والاکرام نے ارشاد فرمایا
”كَلَّابَلْ ٚرَانَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ مَّاكَانُوْایَكْسِبُوْنَ“
”نہیں ! بلکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ ان کے دلوں پر زنگ آگیا ہے ان کے اعمال کی وجہ سے۔“گویا ہمیں معلوم ہوگیا کہ دل کو واقعتاً زنگ لگتاہے۔
نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ سے بھی ہمیں پتا چلتاہے کہ دل کو زنگ لگ جاتاہے۔ مشکوٰة شریف کی حدیث ملاحظہ فرماٸیں۔
”حضرت عبداللہ بن عمر - روایت کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : اِنَّ ھٰذِہِ الْقُلُوْبَ تَصْدَأُ کَمَا یَصْدَأُ الْحَدِیْدُ“
”ان دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جیسے لوہا پانی پڑنے سے زنگ آلود ہوجاتا ہے“
اب اس زنگ کو کیسے ختم کی جاۓ وہ کونسی پالش ہو جو ہمارے دل کو زنگ آلود ہونے سے محفوظ کردے وہ اسی حدیث مبارکہ کے دوسرے حصہ میں پیارے نبی ﷺ نے ارشاد فرماٸی۔ پوری حدیث مبارکہ ملاحظہ فرماٸیں۔
” قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ مَا جَلاَئُ ھَا؟ قَالَ کَثْرَۃُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَ تِلَاوَۃِ الْقُرْاٰنِ۔
ترجمہ: ۔ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسولؐ! دل کا زنگ کس چیز سے دور ہوگا؟ فرمایا موت کو بہ کثرت یاد کرنے سے اور قرآن کی تلاوت سے۔“
احباب!
معلوم ہوا دل کا زنگ مٹانے اور اسے چمکانے کی پالش موت کو کثرت سے یاد کرنا اور تلاوت قرآن ہے۔اس بات کو دوسری حدیث مبارکہ میں اور بھی بہترین انداز میں بیان فرمایا گیا ہے۔
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «لِكُلِّ شَيْءٍ صِقَالَةٌ وَصِقَالَةُ الْقُلُوبِ ذِكْرُ اللَّهِ»
عبداللہ بن عمر ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے :’’ ہر چیز کے لئے ایک صفائی کرنے والی چیز ہوتی ہے ، جبکہ دلوں کی صفائی کرنے والی چیز اللہ کا ذکر ہے“
چنانچہ معلوم ہوا دل کا زنگ اتارنےکی پالش اللہ کا ذکر ہے۔
واپس کریں