دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
طاقت کا اصل سرچشمہ عوام-
No image میرے وطن عزیز کے آئین کا ایک بہت ہی اہم نکتہ "طاقت کا اصل سر چشمہ عوام ہیں" کتنا خوبصورت اور دل کو لبھانے والا یہ پوائینٹ ہے۔جب بھی آئین میں اس جملے کو پڑھتے ہیں تو پورے جسم میں سرشاری کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے اور ان لوگوں کو دعائیں دینے اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کو دل کرتا ہے جنہوں نے اس ملک کے باسیوں کو اتنے بڑے فخر سے نوازا اور اتنا بڑا اختیار انہیں تفویض کیا کہ وہ طاقت کا سرچشمہ کہلائیں اور وہ بھی اصل طاقت۔گویا انہیں دی گئی یہ طاقت کوئی مانگے تانگے کی طاقت نہیں ہے بلکہ یہ طاقت اسے اس ملک کے آئین نے دی ہے وہ آئین جو ایک مقدس کتاب کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔وہ آئین جس پہ میرے ملک کے نظام کا دارومدار ہے۔ وہ آئین جو ایک ایسی دستاویز ہے جو میرے ملک کی عوام کو انکے حقوق کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔اس آئین کے تحت میرے ملک کے نظام کو چلانے کیلئے کئی ادارے بناۓ گئے ہیں جو قوانین و ضوابط پر عمل درامد کروانے کے پابند ہوتے ہیں جن کیلئے کچھ افراد کا تقرر کیا جاتا ہے۔دوسرے الفاظ میں یہ ادارے ان افراد کی مدد سے قوانین پر عمل درامد کرواتے ہیں اور یوں میرے ملک کا نظام حکومت جاری و ساری رہتا ہے۔کبھی کبھار جب اس نظام میں کوئی خلل ہیدا ہو جاتا ہے تو اس ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس خلل کو دور کرنے کیلئے آئین کی تشریح کرے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ اسی آئین کے تحت میرے ملک کی عوام اپنی اسی اصل طاقت کے بل بوتے پر وقتا" فوقتا" ہونے والے الیکشنز میں اپنے ووٹ کے ذریعے قومی اسمبلی کیلئے عوامی نمائیندوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ عوام کے ووٹوں سے چنے گئے یہ عوامی نمائیندے قومی اسمبلی میں پہنچ کر قائد ایوان کا انتخاب کرتے ہیں جو بعد میں بطور وزیراعظم پاکستان حلف اٹھاتے ہیں۔یہ وزیر اعظم اپنی کابینہ تشکیل دیتے ہیں جنہیں مختلف محکمے تفویض کیئے جاتے ہیں جنکے انتظام و انصرام کی یہ وزراء نگرانی کرتے ہیں۔عوام انکی اس نگرانی کی بناء پر انہیں حق خدمت کے طور پر بھاری تنخواہیں ہاؤس رینٹ یا بنگلوز بڑی بڑی لگژری گاڑیاں بجلی ٹیلی فون کی سہولت اور دیگر مراعات دیتے ہیں۔عوام یہ سب کچھ انہیں اپنے دیئے گئے اس ٹیکس کے پیسے سے دیتے ہیں جو یہی نمائندے اپنے منتخب کرنے والوں پر لگاتے ہیں۔ گویا یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ واقعی عوام ہی دراصل حقیقی طاقت کا سرچشمہ ہیں۔
اب اس اصل طاقت کے سرچشمے یعنی عوام کے ساتھ حقیقت میں ہو کیا رہا ہے-؟ اس پہ بات کرنے کیلئے چند سوالات کے جوابات جاننے کی اشد ضرورت ہے جس سے پتہ چلے گا کہ واقعی عملی طور پر یہ بات کتنی درست ہے؟
1- کیا طاقت کے اس سرچشمے یعنی عوام کو اپنے حق راۓ دہی کے استعمال میں مکمل آزادی حاصل ہے اور وہ بغیر کسی پریشر یا لالچ کے اپنا حق راۓ دہی استعمال کرتے ہیں۔؟
2- کیا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی عوامی فلاح و بہبود پر مبنی قانون سازی کرتے ہیں۔؟
3-کیا یہ ارکان اسمبلی وزیر اور مشیر بن کر اصل طاقت یعنی عوام کی طرف سے دیئے گئے پیسے کا درست استعمال کرتے ہیں یا انہیں صرف اپنے اثاثے بڑھانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔؟
4-کیا وزیر اعظم وزراء اور مشیران کی طرف سے کی جانے والی بیورو کریسی اور افسران کی تمام تر تقرریاں میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر کی جاتی ہیں اور ان میں کسی اقربا پروری یا بد عنوانی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔
4-کیا عوام کے دیئے گئے پیسے سے تنخواہیں لینے والے یہ افسران عوام کے مسائل کو بغیر کسی رشوت یا سفارش کے حل کرتے ہیں۔؟
5-کیا عوامی طاقت کے بل بوتے پر آنے والی حکومت عوام کو انکے بنیادی حقوق یعنی صحت۔ تعلیم۔ سستا اور نظر آنے والا انصاف۔ امن و امان اور جان و مال کا تحفظ۔ بہتر ذرائع آمد و رفت اور دیگر سہولیات کا فرض پوری طرح ادا کر رہی ہے۔؟
ان تمام سوالات کا جواب اگر ہاں میں ہے تو پھر ہم کہ سکتے ہیں کہ طاقت کا اصل سرچشمہ واقعی عوام ہیں اور آئین میں جو لکھا گیا ہے وہ بلکل درست ہے۔لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آئین پاکستان میں لکھے ہونے کے باوجود طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں ہے بلکہ طاقت کا اصل اور حقیقی سرچشمہ محض وہ دو فیصد اشرافیہ ہے جو تمام تر ملکی وسائل پر قابض ہے اور گذشتہ ستتر سالوں سے عوام کا خون نچوڑتی چلی آ رہی ہے۔عوام پہلے بھی مشکلات کا شکار تھی اور اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی اس کی حالت ویسی کی ویسی ہی ہے۔ گویا:-
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھریں ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
آج میرے ملک کی عوام اپنے نمائندے منتخب کرنے میں کلی طور پر آزاد نہیں ہے۔وہ وڈیروں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے زیر اثر ہے۔یہ لوگ جدھر اپنی انگلی کا اشارہ کر دیتے ہیں عوام اسی طرف بھیڑ بکریوں کی طرح چل پڑتی ہے۔اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ جسے وہ اپنے ووٹ کی پرچی کے ذریعے منتخب کر رہے ہیں وہ عوام کی فلاح و بہبود کے ضمن میں کتنے مفید ثابت ہو سکتے ہیں اور اس ضمن میں ماضی میں انکی کیا خدمات ہیں۔؟ ان لوگوں نے عوام کو آہنی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور غلامی انکی رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے۔یہ لوگ اسمبلیوں میں جا کر قانون بھی وہی بناتے ہیں جو انہیں سپورٹ کرتا ہے۔منتخب ہونے کے بعد یہ لوگ سواۓ چند لوگوں کو چھوڑ کر کہیں بھی نظر نہیں آتے اور فصلی بٹیروں کی طرح کہیں پہ چھپ جاتے ہیں اور جب انتخابات آتے ہیں تو دوبارا مکر و فریب کا لبادہ اوڑھ کر باہر نکل آتے ہیں اور پھر عوام کو بیوقوف بنانا شروع کر دیتے ہیں اور میرے ملک کی بھولی بھالی عوام آوے گا بھئ آوے گا کے نعرے لگانا شروع کر دیتی ہے ۔جس دیس کے حاکم محض اپنی تجوریاں بھرنے کیلئے حکومت کرتے ہوں۔ جہاں وہ خالی ہاتھ اور بلکل تہی دامن آتے ہوں اور جاتے وقت ان کے اربوں کھربوں میں اثاثے ہوں اور اندرون ملک اور بیرون ملک بنک انکے رقوم سے بھرے پڑے ہوں ۔جہاں ایک روٹی چور کو تو پکڑا جاتا ہو اور ملک لوٹنے والوں سے کوئی پوچھ گچھ نہ ہوتی ہو ۔ جہاں طاقتور کو ہر سہولت اور عیش و عشرت میسر ہو اور کمزور بے بس اور لاچار ہو۔ جہاں قانون بھی طاقتور اور کمزور کی تمیز کو روا رکھے اور قانون بنانے والے بھی اسی نہج پر قانوں بنائیں۔۔جہاں دولت کے بل بوتے پر ہر چیز بکتی ہو۔عزت بھی۔ عظمت بھی ۔عصمت بھی اور شہرت بھی۔جہاں محض اپنی اناء کی خاطر بڑے سے بڑے غیر آئینی فیصلے کر لئے جاتے ہوں لیکن ان کو کوئی پوچھنے والا نہ ہو اور جہاں امیر اور غریب کو مراعات دینے کیلئے معیارات الگ الگ ہوں تو عوام کی حالت ایسے ہی رہے گی۔
کسی بھی ملک میں معاشی ترقی اسی وقت صحیح معنوں میں پنپ سکتی ہے جب ملک میں سیاسی استحکام ہو کیونکہ وسیع تر سیاسی سماجی ثقافتی اور ادارہ جاتی صورتحال کو اس سےالگ نہیں رکھا جا سکتا۔ معاشی ترقی کیلئے سازگار ماحول ضروری ہوتا ہے۔ عوام مخالف ماحول میں کوئی بھی ملک معاشی ترقی حاصل نہیں کرسکتا۔ دُنیا میں کسی بھی ملک کو کسی بھی قوم کو کسی بھی خطے کو سیاست عقیدے اقلیت اکثریت عدالتی اور عسکری اداروں پر منقسم نہیں پایا گیا۔ جس ملک میں ایسی ملتی جلتی کیفیت دکھائی دی اس ریاست کو متحد نہیں دیکھا گیا بلکہ اسے پاش پاش ہی دیکھا گیا۔ اس میں کوئی باک نہیں کہ سیاستدان ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے اداروں کو ملوث رکھنے میں تدبیر و ترکیب آزمانے کا کوئی موقع نہیں گنواتے، مگر یہ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب آئین پہ عمل نہ ہو رہا ہو کیونکہ ایک مخصوص عرصے بعد سیاسی عدم استحکام پیدا کر دیا جاتا ہے اور حکومت کو چلتا کر دیا جاتا ہے یا اپنی بد اعمالیوں کی بدولت خود ہی اڑن چھو ہو جاتی ہے۔ایسے میں عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا
ایسی صورت حال میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مثبت اقدامات اٹھاۓ جائیں کیونکہ معاشرے کا متوسط طبقہ اب غربت کی لکیر سے نیچے چلا گیا ہے۔ معاشرے میں اب تین نہیں صرف دو طبقے رہ گئے ہیں ایک امراء کا طبقہ اور دوسرا انتہائی غریب طبقہ ۔ جس کے پاس دو وقت کا کھانا بھی نہیں ہوتا۔ حکومت تسلیوں پر تسلیاں دے رہی ہے کہ اس عارضی مہنگائی سے گھبرانا نہیں ہے، اچھے دن بہت جلد آنے والے ہیں‘ لیکن ان طِفل تسلیوں سے عوام کا پیٹ نہیں بھر سکتا‘ حد تو یہ ہے کہ اب اِس بدحالی کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں میں خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے میں حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ فی الفور عوام کو ریلیف دے اور قیمتوں کو کم کرے خاص طور پر اشیاۓ صرف کی قیمتوں کو اعتدال پر لانا اب ضروری ہو چکا ہے۔آٹا گھی اور چینی کی قیمتوں کیساتھ ساتھ گیس بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔یقین کریں عوام میں مہنگائی کی بناء پر بے چینی دیکھی جا ریی ہے۔ یہ بے چینی کسی بڑے طوفان کا بھی پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ غریب عوام تو یہی چاہتی ہے کہ اسے ضرورت کی اشیاء سستے داموں ملیں اور وہ اس کی پہنچ میں ہوں تاکہ وہ اپنے زیر سایہ خاندان کو یہ تمام اشیاء فراہم کر سکے۔اگر یہ سب کچھ میسر ہو تو پھر ہم کہ سکتے ہیں کہ :-
"طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہیں"
واپس کریں