دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا یہ حکومت چلےگی؟
No image مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ لیگی قائد کا ماننا ہے کہ حکومت چھوڑ دونگا لیکن اپنے لوگوں پر بوجھ نہیں ڈالوں گا۔ مہنگائی کا طوفان لانے سے حکومت چھوڑنا بہتر ہے۔سرگودھا میں مسلم لیگ ن کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ آج اگر ڈالر آسمان پر اور معیشت وینٹی لیٹر پر ہے تو اس کے ذمہ دار عمران خان ہیں۔ اگر حکومت کو پیٹرول کی قیمت بڑھانی پڑے تو اس کے ذمہ دار بھی وہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کیلئے کسی چیز کی قیمت ایک روپے بڑھانا بھی بہت مشکل کام ہے کیونکہ دونوں قائدین کو عوام کا احساس ہے۔ شہباز شریف آپ کی طرح نہیں، وہ آلو اور پیاز کی قیمت ٹھیک کرنے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کہتا ہے کہ حکومت چھوڑ دوں گا لیکن عوام پر بوجھ نہیں ڈالوں گا۔ عمران خان کی تباہی کا ٹوکرا اپنے سر نہیں لے سکتے۔ انہوں نے عوام سے سوال کیا کہ حکومت میں رہنا چاہیے یا چھوڑ دینی چاہیے؟ مریم نواز کا کہنا تھا کہ ہم اس لیے حکومت میں آئے کیونکہ عمران خان اگلے الیکشن پر بھی ڈاکا ڈالنا چاہتا تھا۔ ہم نے حکومت میں آکر اس کے پلان کو فیل کردیا۔ عمران خان اب آپ کچھ بھی کرو آپ کا کھیل ختم ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ کہا جاتا تھا کہ نواز شریف کی سیاست ختم ہو گئی لیکن انہوں نے عمران خان کی حکومت گرا کر اس کے 12 سالہ پلان کو فیل کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے پاکستان سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اور ملکی معیشت کو درست سمت میں گامزن کیا تھا لیکن ایک کھلنڈرے اور نااہل کو پاکستان کے عوام پر مسلط کیا گیا۔ نااہل کے آنے کے بعد لوڈشیڈنگ دوبارہ شروع ہوگئی، معیشت تباہ ہو گئی۔
مسلم لیگ نواز اور اتحادی جماعتوں نے جب اقتدار سنبھالا تو ڈالر، جس کے دام پر ہی ہماری معیشت چلتی ہے، چند روز کے لیے روپے کی قدر کے مقابلے میں کمزور ہوا اور اسٹاک ایکسچینج جو سرمایہ دارانہ نظام ایک بڑا ہتھیار ہے اس میں بھی بہتری آئی۔ مگر جیسے جیسے دن گزرتے گئے یوں محسوس ہونے لگا کہ حکومت تذبذب اور ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ اس دوران وزیراعظم شہباز شریف نے سب سے بڑا کارنامہ جو انجام دیا وہ اسلام آباد ائر پورٹ تک میٹرو بس سروس کا آغاز تھا۔ قومی معیشت اور سیاست کس رخ پر ہیں اس پر وہ مخمصے کا شکار تھے۔ ایک نامور صحافی، تجزیہ نگار جو ایک انگریزی ہفت روزہ کے مدیر اعلیٰ بھی ہیں اس ضمن میں یہ بتاتے ہیں کہ ”اسٹیبلشمنٹ نے اس نئی حکومت کو یہ کہا ہے کہ آپ معیشت کی بحالی کے لیے سخت فیصلے لیں اور جولائی اگست میں انتخابات کا اعلان کر دیں تاکہ اکتوبر تک نئی حکومت اپنی ذمہ داریاں سنبھال لے۔ جس پر حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں اور خاص کر مسلم لیگ نواز پریشانی میں مبتلا ہو گئی۔
مسلم لیگ نواز کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اگر انہوں نے سخت فیصلے کرنے ہیں جس میں سب سے بڑا فیصلہ پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کا ہے، جس کے نتیجے میں انہیں سخت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسی صورت میں جب کہ عمران خان جلسے پر جلسے کر رہے ہیں اور بظاہر عوامی حمایت ان کے حق میں نظر آ رہی ہے، مسلم لیگ نواز کا فوری انتخابات میں بڑی کامیابی کے امکانات کم ہوں گے“ ۔ اس تجزیے میں حقیقت یوں بھی محسوس ہوتی ہے کہ کمیونیکیشن کے اس جدید دور کے باوجود وزیراعظم شہباز شریف اور ان کابینہ میں شامل مسلم لیگ نواز کے وزراء بھی راتوں رات لندن نواز شریف کے پاس جا پہنچے۔ جہاں مشاورت کا عمل ممکن ہوا۔ اسی دوران پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری نے ایک بھرپور پریس کانفرنس کی اور ملک کی اقتصادی صورتحال میں بہتری کے لیے اہم نکات کی نشاندہی کی۔ پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ جو بات بھی کر رہے ہیں وہ نواز شریف کے ساتھ مشاورت کے بعد کر رہے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں خاص کر مسلم لیگ نواز اور عمومی طور پر دیگر اتحادی جماعتوں کو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ انہوں نے اپنی سیاست کو محفوظ کرنا ہے یہ ملک کو بچانا ہے۔ اگرچہ اب حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپنی مدت پوتی کرے گی، لیکن اگر کسی بھی اسٹیج پر مسلم لیگ نواز نے حکومت چھوڑی اور اسمبلیاں تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کروائے تو مسلم لیگ نواز عوامی پذیرائی سے کافی حد تک محروم ہوگی۔ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اس دباؤ کے بعد کہ انتخابات ستمبر ، اکتوبر میں کرائے جائیں، مسلم لیگ ن نے اسٹیبلشمنٹ پر واضح کر دیا ہے کہ اگر ہم نے اپنی سیاست کی قیمت چکانی ہے تو ہماری حکومت اگست 2023 تک اپنی مدت پوری کرے گی۔ ہم کسی دبائو میں نہیں آئیں گے۔ اگر ضرورت پیش آئی تو براہ راست عمران خان سے بات کر لیں گے۔
مسلم لیگ چاہتی ہے کہ اسے اس بات کی گارنٹی ہونی چاہیے کہ ایم کیو ایم، بی اے پی اور پیپلز پارٹی ان کیساتھ رہے۔ 3 ماہ بعد یہ نہ کہہ دیا جائے کہ ہم تو اس اتحاد کا حصہ ہی نہیں ہیں۔ اس کے بعد صدر مملکت اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ دیں جو ہم پورا نہ کر سکیں اور ہمیں کہا جائے کہ چونکہ آپ کے پاس اکثریت نہیں ہے، اس لئے نئے انتخابات کرانے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ن لیگ کا کہنا ہے کہ اگر ایسی کوئی صورتحال رواں سال جولائی، اگست یا ستمبر میں ہونی ہے تو پھر ہم کسی صورت بجٹ پیش نہیں کرینگے اور نہ ہی آئی ایم ایف کیساتھ کوئی معاہدہ، ہم آج ہی اسمبلیاں توڑ دیتے ہیں۔ اگر موجودہ سیٹ چلنا ہے تو اپنی مدت پوری کرے گا، ورنہ 72 گھنٹے کے اندر ہی کوئی فیصلہ کر لیا جائے گا۔ اگر یہ سسٹم چلنا ہے تو اگست 2023ء تک چلے گا۔
بشکریہ: شفقنا اردو
واپس کریں