دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عوام کو جاپان بھجوانے کا عمل سستی کا شکار کیوں؟محمد عرفان صدیقی
No image پاکستان میں مہنگائی کے اس دور میں جب عوام کو روح اورجسم کا رشتہ قائم رکھنے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے اور ہر دوسرا پاکستانی اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کیلئے ،ملازمت کیلئے بیرونِ ملک جانے کا خواہاں ہے، ایسے وقت میں پاکستانی عوام کیلئے قانونی طریقے سے جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک جانے کا ایک موقع میسر آیا تھا لیکن یہاں بھی اقربا پروری اور عدم منصوبہ بندی کے سبب دیگر ممالک کے مقابلے میں جاپان بھجوائے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد بہت کم ہورہی ہے اور جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے دوسرے ممالک جن میں بھارت، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا شامل ہیں اپنی بہترین منصوبہ بندی اور کوششوں سے جاپان کی غیر ملکی کارکنوں کی ضروریات پوری کر کے پاکستانیوں کو حاصل یہ موقع بھی ختم کردیں گے ، جی ہاں ایک طویل عرصے بعد پاکستانی عوام کو یہ موقع میسر آیا تھا کہ گیارہ سے زائد شعبوں میں ،چاہے وہ تعلیم یافتہ ہوں یا غیر تعلیم یافتہ،کسی بھی ایسے شعبے میں جس میں جاپان کو کارکنوں کی ضرورت ہو، کا طویل تجربہ رکھتے ہوں اور بنیادی گفتگو کرنے کی جاپانی زبان سے واقفیت رکھتے ہوں وہ ملازمت کے ویزے پر جاپان جاسکتے ہیں، جہاں انھیں تین سے پانچ لاکھ روپے پاکستانی تنخواہ و دیگر مراعات حاصل ہونا تھیں۔
پاکستانیوں کیلئے اس سہولت کے حصول کیلئے سفارتخانہ پاکستان میں سفیر پاکستان سے لے کر کمیونٹی ویلفیئر اتاشی تک نے سخت کوششیں بھی کیں لیکن پاکستانیوں کو جاپان بھجوانے کیلئے جو طریقہ کار طے ہوئے اس میں پاکستان سے صرف وہ ادارے ہنرمندوں کو جاپان بھیج سکتے تھے جن کو لائسنس وزارت اوورسیز پاکستانی نےجاری کیا ہو،یہاں سے ہی اقربا پروری کے ایک نئے باب کا اضافہ ہوا اور منصوبہ کی رفتار انتہائی دھیمی کرنے میں بھی اقربا پروری پر مبنی اسی فیصلے نے اہم ترین کردار ادا کیا، کیونکہ جب ممکنہ طور پر حکومت جاپان کی جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ کچھ اداروں کو جاپان کیلئے ہنر مند بھیجنے کیلئے مخصوص کیا جائے تو پاکستان میں جتنے اثر و سوخ رکھنے والے افراد تھے انھوں نے ہنر مند جاپان بھجوانے کے کام کو پاکستان کیلئے موقع سمجھنے کے بجائے اپنے لیے موقع سمجھا اور تعلقات استعمال کرکے جاپان کیلئے ہنر مند بھجوانے کے لائسنسں حاصل کر لیے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تک ممکنہ طور پر بائیس اداروں نے یہ لائسنس تو حاصل کر لیے لیکن شاید دو سے تین اداروں نے ہی جاپانی زبان سکھانے کے اسکول قائم کیے ہوں جو ہنر مندوں کوجاپان بھجوانے کی بنیادی ضرورت ہے۔
اس وقت بھارت میں جاپان فائونڈیشن کی رپورٹ کے مطابق چالیس ہزار طلبہ و طالبات جاپانی زبان سیکھ رہے ہیں یہی حال نیپال ، بنگلہ دیش اور سری لنکا کا بھی ہے ، لیکن پاکستان میں یہ تعداد شاید چند سو سے زائد نہ ہو ،وزارت اوورسیز پاکستانی نےبائیس سے زائد اداروں کو ہنر مندوں کو جاپان بھجوانے کے لائسنس جاری کیے ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ ان اداروں کو پابند کیا جاتا کہ کم از کم یہ ادارے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں جاپانی زبان سکھانے کے معیاری اسکول قائم کریں، اس منصوبے میں سرمایہ کاری کریں ،لیکن لگتا ہے کہ وزارت اوورسیز پاکستانی نے اقربا پروری کی بنیاد پر یہ لائسنس جاری کئے ہیں اور اب جاپان آنے کے خواہشمند ہزاروں پاکستانی ملک میں ان اداروں کو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں جنھوں نے عوام کو جاپان بھجوانے کی کوئی تیاری نہیں کی، نہ معیاری اسکول قائم کئے ہیں نہ ہی جاپان میں کاروباری اداروں سے ملازمتوں کی ڈیمانڈ جنریٹ کی ہے، نہ ہی ان بائیس اداروں نے جاپان میں اپنے نمائندے تعینات کئے ہیں، جن اداروں نے پاکستان میں یہ لائسنس حاصل کئے ہیں ۔
ان میں ایک سابق وفاقی وزیر تجارت کی کمپنی بھی شامل ہے لیکن اس کمپنی سے آج تک ایک فرد بھی جاپان نہیں پہنچ سکا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان لائسنس یافتہ کاروباری اداروں کا دوبارہ آڈٹ کرے، دیکھے کہ ان اداروں نے اب تک جاپانی زبان سکھانے کا کوئی اسکو ل قائم کیا ہے یا نہیں، جاپان میں نمائندہ مقرر کیا ہے یا نہیں، یاد رکھیں یہ موقع ان کاروباری اداروں کیلئے نہیں تھا بلکہ ان غریب پاکستانیوں کیلئے تھا جو باہر جاکر اپنے غریب اہل خانہ اور اپنے ملک کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن افسوس کہ اس موقع سے فائدہ بھی بعض کاروباری اداروں نے اٹھانے کا ٹھیکہ حاصل کر لیا ہے، افسوس یہاں بھی میرٹ شکست کھا گیا۔
بشکریہ۔جنگ نیوز
واپس کریں