دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ذرا سوچیں! ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟
No image اجتماعی زندگی انسان کی فطرت ہے۔ نوعِ انسان کو ورنہ کم از کم ایک ملک کے انسانوں کو ایک جسم قرار دے کر اس کی صحت کے تحفظ اور ترقی اور اس کی بیماریوں اور خرابیوں کے زائل کرنے کی تدابیر سوچنا اور ان کو نافذ کرنا سیاست یا نظام کہلاتا ہے اور انہی تدابیر کا نام قانون ہے۔
کسی قوم یا کسی جماعت کو ان تدابیر کے سوچنے اور نافذ کرنے کا خود اختیار ہو، یہ آزادی ہے۔
کیا وہ قوم آزاد کہلانے کے قابل ہو سکتی ہے، جو اپنے آقاؤں کے بنائے گئے قوانین کے تحت ملک کا نظام چلانے کی پابند ہو اور وہ ان قوانین کو بدلنے کا حق اور چھیڑنے کی جرت بھی نہ رکھتی ہو؟ کیا ہم واقعی 14 اگست 1947 کو آزاد ہوئے ہیں؟ یا پھر آزادی کی آڑ میں آزادی کے نام پر غلامی کی ایک شکل سے دوسری شکل میں جکڑے گئے ہیں۔
مروجہ پاکستانی قوانین برطانوی نوآبادیاتی دور کے ہیں۔
1۔ موجودہ ضابطہ فوجداری 123 سال پرانا ہے۔
2۔ ٹرانسفر آف پراپرٹی کا قانون جو ہم نے رائج کر رکھا ہے، وہ 139 سالہ پرانا ہے۔
3۔ رجسٹریشن ایکٹ 113 سالہ پرانا ہے۔
4۔ بچوں کی کسٹڈی کا قانون 131 سالہ پرانا ہے۔
5۔ پولیس ایکٹ کو بنے 160 سال ہو چکے ہیں۔
6۔ پاسپورٹ ایکٹ 101 سال پرانا ہے۔
7۔ سٹیمپ ایکٹ 122 سال کا ہو چکا ہے۔
8۔ بجلی کا قانون ایکٹریسٹی ایکٹ کی عمر 111 ہے۔
9۔ قانونِ پریس & رجسٹریشن آف بکس 154 سال پرانا ہے۔
10۔ جنرل کلاز ایکٹ 124 سال کا ہو چکا ہے۔
11۔ اوتھ ایکٹ 147 سال کا ہو چکا ہے۔
12۔ پارٹیشن ایکٹ کو 128 سال ہو چکے ہیں۔
13۔ روڈ حادثات کے متعلق بنایا گیا قانون فیٹل ایکسیڈنٹس ایکٹ کو 166 سال ہو گئے ہیں۔
14۔ لینڈ ایکوی زیشن ایکٹ کی عمر 127 سال ہے۔
15۔ پارٹنر شپ ایکٹ 89 سال پرانا ہے۔
16۔ نگوشییبل انسٹرومنٹ ایکٹ کی عمر 140 سال ہے۔
یہ وہ امپورٹڈ قوانین ہیں، جو انگریزوں نے برصغیر پر لاگو کیے، تاکہ وہ اس خطے پر اپنی اجارہ داری قائم کر سکیں اور اسے لوٹ سکے۔ یہ آج بھی ہمارے ملک میں رائج ہیں۔ بس ان ہی قوانین میں ترامیم کی جاتی رہی ہیں۔
ذرا سوچیں! ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟
واپس کریں