دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا پاکستان کو میثاق معیشت کی ضرورت ہے؟
No image وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پیٹرول کی قیمتیں نہ بڑھانے کا اعلان کر دیا۔وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 4 سال پہلے جب ہم نے حکومت چھوڑی تو ہم چینی اور گندم برآمد کر رہے تھے لیکن پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت نے چینی برآمد کی اور مہنگی درآمد بھی کی لیکن اس سال پھر ہم گندم برآمد کریں گے۔انہوں نے کہا کہ گنا، گندم اور کپاس تینوں کی پیدوار ان کے دور میں کم ہوئی ہے اور کیا فوڈ سیکیورٹی میں مشکوک افراد کو بٹھایا گیا ہے ؟ پیپلز پارٹی کے چئیرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتحادی حکومت کو مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔ یا تو اب کچھ مشکلات برداشت کرکے طویل المدت سہولت کا اہتمام کرلیا جائے یا پھر فوری ریلیف دے کر ملک کو مکمل معاشی تباہی کی طرف دھکیل دیا جائے۔
بلاول بھٹو زردار ی کا یہ اعلان پیٹرولیم قیمتوں میں اضافہ کا اشارہ ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت مکمل طور سے بےیقینی اور تعطل کا شکار ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے فوری طور سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ انہوں نے تو عالمی منڈیوں میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے وزیر اعظم کو مشورہ دیا تھا کہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق اضافہ کیا جائے۔ تاہم شہباز شریف اس فیصلہ کو عوام کے لئے بڑا بوجھ سمجھتے ہیں اور فوری طور سے اس کی منظوری دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔عبدالرزاق داؤد، اسد عمر اور حماد اظہر بھی وزارت خزانہ چلاتے رہے اور معیشت کی بگڑتی صورتحال کی چشم پوشی کرتے رہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم آج تاریخ کے ایسے سخت دوراہے پر پھنس چکے ہیں جہاں ہماری معیشت بری طرح سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ اور پاکستان کے پاس صرف ایک مہینہ کے ریزروز باقی ہیں۔
یاد رکھیے بیرونی قرضوں پر چلنے والے ممالک جب اپنے بیرونی قرضے کی اقساط اور اس پر سود کی ادائیگی سے قاصر ہوجائیں تو ان ممالک کو دیوالیہ قرار دیا جاتا ہے۔ دیوالیہ ہونے کی صورت میں کرنسی کی قدر روزانہ کی بنیاد پر بہت تیزی سے گراوٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔ اور ڈالر بلندی کی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔ جیسا کہ وینزویلا میں ہوا کہ جب یہ ملک دیوالیہ ہوا تو اس کی کرنسی اس قدر بے وقعت ہوگئی تھی کہ یہ سڑکوں پر بکھری رہتی تھی اور لوگ اس پر چلا کرتے تھے۔ہم ایسے دوراہے پر پھنس چکے ہیں جہاں آئی ایم ایف نے کڑی شرائط عائد کر رکھی ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں ڈیزل و پٹرول پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ، صنعتوں کےلیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا خاتمہ، بجلی کے نرخوں میں اضافہ، ٹیکس وصولی کی شرح میں اضافہ اور مالیاتی خسارہ کم کرنے کی شرائط شامل ہیں۔
اس تناظر میں ایک طرف کنواں ہے اور دوسری طرف کھائی۔ آئی ایم ایف اپنی کڑی شرائط میں سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اگر ہم آئی ایم ایف کی شرائط مانتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات پر سے سبسڈی ہٹاتے ہیں تو مہنگائی کا ایک ایسا سیلاب آئے گا جس کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ ایک عام آدمی مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر رہ جائے گا۔ جبکہ اگر ہم آئی ایم ایف پروگرام سے نکلتے ہیں تو ہم دیوالیہ ہونے کے نزدیک ترین ہوں گے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین، سب نے ہماری مالی معاونت کرنے سے معذرت کرلی ہے۔ یوکرائن جنگ کی وجہ سے یورپی ممالک بھی مالی مسائل کا شکار ہیں۔ ان حالات میں وہ بھی ہم سے معذرت کرچکے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کی سمری نامنظور کی ہے۔ تاہم انہیں بھی اس بات کا اندازہ ہونا چاہئے کہ موجودہ حالات میں یہ فیصلہ سیاسی مقاصد کے لئے کیا جا رہا ہے۔ اس طرح وہ خود بھی اسی غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں جو عمران خان نے کی تھی۔ حکومت کو حوصلہ مندی سے مشکل فیصلے کرنے چاہئیں۔ لیکن یہ فیصلے صرف آئی ایم ایف کا قرض لینے کے لئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے تک محدود نہیں رہنے چاہئے۔ بلکہ ملکی معیشت کو موجودہ بحران سے نکالنے اور قومی پیداوار میں اضافہ کے نقطہ نظر سے ٹھوس اور پائیدار اقدامات کی صورت میں سامنے آنے چاہئیں۔ شہباز شریف، تحریک انصاف کو میثاق معیشت کی پیش کش کرتے رہے ہیں۔ اب اقتدار ان کے پاس ہے، وہ ایسے قومی میثاق کی داغ بیل رکھ سکتے ہیں۔ اس کے تحت ملک میں طبقاتی تقسیم کم کرنے، مالدار طبقہ کو قومی وسائل میں زیادہ حصہ دینے پر مجبور کرنے اور انتظامی ڈھانچہ میں موجود بےاعتدالیوں کو ختم کرنے کے اقدامات ہونے چاہئیں۔
یہ درست ہے کہ موجودہ سیاسی قیادت کے خلاف نفرت کی شدید مہم چلائی جا رہی ہے۔ تاہم مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اگر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے کا فیصلہ کیا ہے تو وہ ایسے دوررس اقدامات کر سکتے ہیں جن سے ملک کے عام شہری کی زندگی میں بہتری کے آثار کی امید پیدا ہو۔ شہباز شریف اور ان کےاتحادی اگر حالات کے عطاکردہ اس موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکے تو ملک کا مستقبل تاریک ہونے سے پہلے عوام ان لیڈروں اور ان کی جماعتوں کو مسترد کر دیں گے۔
بشکریہ:شفقنا اردو
واپس کریں