دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ریکوڈک منصوبہ ناکام کیوں ہے؟میمونہ حسین
No image وزیراعظم شہباز شریف نے بیان دیا ہے کہ ریکوڈک کیس میں اربوں روپے جھونک دیے مگر عوام کو کوئی فائدہ نہ پہنچا۔ریکوڈک جس کا بلوچی زبان میں مطلب ریتیلی چوٹی ہے، بلوچستان کے ضلع چاغی کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ ریکوڈک اپنے سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر کی وجہ سے مشہور ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں دنیا کا پانچواں بڑا سونے کا ذخیرہ ہے۔
ریکوڈک ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب نوکنڈی سے 70 کلومیٹر شمال مغرب میں صحرائی علاقے میں واقع ہے، جو ترکی اور ایران سے پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔ آسٹریلوی کمپنی نے آسٹریلیا پاکستان دو طرفہ سرمایہ کاری معاہدے کی خلاف ورزی اور تانبے اور سونے کی سب سے بڑی کان میں سے ایک کی کان کنی کے حقوق سے انکار پر مقدمہ کیا تھا۔
اس کیس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ کان کنی کمپنی بی پی ایچ بلیٹن اور حکومت پاکستان نے 1993 میں ریکوڈک کان میں سونے اور تانبے کی تلاش اور کان کنی کےلیے چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایگریمنٹ کے نام سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ معاہدے کے مطابق آسٹریلوی مائننگ کمپنی اس منصوبے میں 75 فیصد سود پر رکھے گی جبکہ پاکستان کے پاس بقیہ 25 فیصڈ حصہ باہمی سرمایہ کاری کی کی بنیاد پر اور 2 فیصد رائلٹی کے ساتھ ادا ہوگا۔ بعد ازاں اپریل 2000 میں کمپنی نے اپنی ذمے داریاں ایک غیر معروف آسٹریلوی کمپنی مائنز ریسورسز کے حوالے کردیں، جسے ٹیتھیان کاپر کمپنی نے 2006 میں حاصل کیا تھا۔
ٹیتھیان کاپر کمپنی نے فروری 2011 میں بلوچستان حکومت کے ساتھ مائننگ لیز کی درخواست جمع کروائی، تاہم اسے نومبر میں بلوچستان حکومت نے مسترد کردیا تھا۔ 2013 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے معاہدے کو کالعدم قرار دیا کیونکہ بلوچستان نے اس پر دستخط کرکے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا کیونکہ یہ عوامی پالیسی کی مخالفت کررہا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ معاملہ متنازع ہوتا چلا گیا۔
2011 کے فیصلے پر ٹی سی سی کو ریکوڈک پروجیکٹ کےلیے کان کنی کی لیز سے انکار کرنے کے بعد آئی سی ایس آئی ڈی کے ایک بین الاقوامی ثالثی ٹربیونل نے 12 جولائی 2019 کو پاکستان پر 6 بلین کا جرمانہ عائد کردیا گیا۔ ٹربیونل کی سربراہی جرمنی کے کلاؤس ساکس کررہے تھے اور اس پر بلغاریہ کے ثالث اسٹیمیر الیگزینڈر روف اور برطانیہ کے لارڈ ہوف مین بھی شامل تھے، جنہوں نے پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ ٹی سی سی کو 4 بلین ڈالر سے زائد سود بھی ادا کرے۔
جب اس معاہدے کی دو طرفہ خلاف ورزی ہوئی تو اس پر عمران خان نے بھی اپنے دور اقتدار میں ایک کمیشن تشکیل دیا تھا کہ اس کی وجوہات کی تحقیقات کی جائیں کہ آخر پاکستان اس مشکل سے کیوں دوچار ہوا۔
ماضی کے تمام حقائق کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم کا یہ اعلان صوبے کے سیاسی رہنماؤں کی تنقید کے بعد سامنے آیا، جنہوں نے ریکوڈک منصوبے کے ’مجوزہ معاہدے‘ پر تنقید کی تھی۔ حال ہی میں بلوچستان اسمبلی نے اس منصوبے پر ایک قرارداد بھی منظور کی تھی جس میں متنبہ کیا گیا تھا کہ بلوچستان کے منتخب نمائندوں اور صوبائی حکومت کو شامل کیے بنا منصوبے کے مستقبل کے بارے میں کوئی معاہدہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ قرارداد متفقہ طور پر اس وقت منظور کی گئی جب ایوان کو بتایا گیا کہ وفاقی حکومت، بلوچستان حکومت اور اسمبلی کو اعتماد میں لیے بغیر تانبے اور سونے کی کان کنی کے معاہدے یا کسی بھی یادداشت پر دستخط نہیں کیے جائیں گے۔
اب اس پروجیکٹ کی ناکامی کی وجوپ کچھ یوں ہیں۔
پہلے نمبر پر فنی اور تکنیکی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے ملک میں قابل لوگوں کی کمی نہیں۔ اگر اس پروجیکٹ کو مکمل کرنے کےلیے ملکی سطح پر سنجیدہ ہوتے تو بہت سے راستے نکل سکتے تھے۔ جہاں سیاسی جماعتیں مختلف اسکیموں پر اربوں ضائع کرتی ہیں اور وہ سب کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں چند ہی مہینوں کے بعد اگر تھوڑا سا پیسہ ہی جدید مشینری پر لگادیا جاتا تو آج اس ملک کی تقدیر بدل سکتی تھی۔ مختلف سیاسی گروہ بندیوں، تنازعات اور سیاسی اختلافات کی وجہ سے بھی یہ پروجیکٹ ناکام ہوا۔
یہ منصوبہ قومی اور عالمی قوانین اور ریاستوں کے روایتی ردعمل کی وجہ سے بھی معطل ہوا۔ کچھ سیاسی جماعتوں کی متنازع آراء اور ٹائم فریم کے ساتھ مطابقت نہ ہونے کی وجہ سے بھی اس پروجیکٹ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب اگر پاکستان کا یہ منصوبہ پایہ تکمیل کی جانب جاتا ہے تو اس کے مثبت اثرات ملک کے عوام اور معیشت پر ثابت ہوتے۔
اگر یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچتا تو مختلف سیکٹرز میں روزگار کی فراہمی میں اضافہ ہوتا۔ نئے منصوبے اور پروجیکٹس کی تعمیر اور ترقی کےلیے لوگوں کو ملازمت کے مواقع حاصل ہوتے جو معاشی ترقی کو بھی بہتر بناتے اور بے روزگاری کا بھی خاتمہ ہوتا۔ اس پروجیکٹ کی تکمیل سے بینک اور مالیاتی سیکٹرز میں بھی ترقی حاصل ہوتی، کاروباری طبقے کو اور نئی انڈسٹری کو فروغ دینے کےلیے آسان قرضوں کی فراہمی اور سرمایہ کاری میں بھی مدد ملتی۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اقتصادی، معاشی اور روزگار کو فروغ ملتا۔
بدقسمتی سے صر ف ایک بیان سے ایک اہم پروجیکٹ کو دبا کر رات گئی اور بات گئی والا معاملہ کیا جارہا ہے۔ اس ملک میں ہر سیاسی جماعت کا اپنی اپنی سیاست کو فروغ دینے اور اپنے اقتدار کو محفوظ کرنے کے سوا ان کے دماغوں میں کوئی پلان ہی نہیں ہوتا۔ ہر سیاسی جماعت نے اپنے ذاتی مفادات اور شارٹ کٹ کا سہارا لیتے ہوئے ملک کا دیوالیہ کردیا ہے۔ یہاں وہی پروجیکٹ چلتے ہیں جن میں ان کے اپنے بینک بیلنس میں اضافہ ہو، کمیشن ملتا رہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ملک و قوم کی بہتری کےلیے ایک صفحہ پر نہیں آنا چاہتی جس کے نتائج ملک اور غریب عوام کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔
واپس کریں