دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیاسی انجینئرنگ جاری ہے
No image سیاسی قوتوں کے لیئے افسوسناک مذاق امر ہونا چاہیئے کہ طاقتور حلقے یا بالفاظِ دیگر اشٹبلشمنٹ عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی کے لیے حالات کو مشکل بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ سابق کٹھ پتلی وزیر اعظم عمران خان کو کمزور کرنے اور ان کے دوبارہ انتخاب کے امکانات کو سبوتاژ کرنے کے لیے مؤخر الذکر کی جانب سے حال ہی میں دو نئی سیاسی کنگ پارٹیاں بنائی گئی ہیں۔ اگرچہ جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی کوئی مضبوط پہلا تاثر بنانے میں ناکام رہی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے سابق وزیراعلیٰ کے پی پرویز خٹک کے ساتھ ایک اور”کوشش“ کی گئی ہے کہ عمران خان کو سیاسی طور پر کمزور کیا جا سکے۔ دو دن قبل ہی پرویز خٹک نے اپنی سیاسی جماعت کا باقاعدہ آغاز کیا لیکن یہ واضح ہو گیا کہ پی ٹی آئی پارلیمینٹیرینز کے پاس پارٹی کے منشور کی شکل میں کوئی ٹھوس عوامی رائے نہیں ہے بلکہ اس کی حکمت عملی، فی الحال، کے پی میں سیاسی جگہ پر قبضہ کرنے پر مرکوز دکھائی دیتی ہے جبکہ آئی پی پی پنجاب میں سیاسی لوٹ مار کو بڑھاوا دیتی دکھائی دیتی ہے۔
مذکورہ بالا صورتِ حال کو کسی بھی طور پر جمہوریت کے لیئے فائدہ مند قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ نے یہ حکمت عملی کیوں اختیار کی؟ یا انتخابی میدان میں نئے چہروں کو کیوں متعارف کرایا جا رہا ہے؟ یہ دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے سوچنے کا سوال ہے؟
پاکستان کے تجربے میں، سیاست دان اس وقت تک نئی پارٹیاں نہیں بناتے جب تک کہ انہیں کسی نہ کسی قسم کی ”پشت پناہی“ حاصل نہ ہو۔ تو کیا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے میدان تیار کیا جا رہا ہے کہ اگلے عام انتخابات میں کوئی ایک جماعت واضح فاتح کے طور پر سامنے نہ آئے؟ کیا ہمارے پاس ایک اور معلق پارلیمنٹ رہے، جو اشٹبلشمنٹ کے حکم کے سامنے رہے اور جو حکمرانی کے عمل میں اپنی مداخلتوں کے لیے جوابدہ نہ ہو؟
کیا ہم ایک اور 'سویلین' حکومت کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے دیکھیں گے؟ جب یہ تازہ ترین تجربہ ناکام ہونا شروع ہو جائے گا۔ 'استحکام' کی ضرورت ایک عام بات رہی ہے کیونکہ تجزیہ کار اور پالیسی ساز ان بہت سے بحرانوں سے نبردآزما ہیں جنہوں نے پاکستان کو پچھلے ایک سال کے دوران اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ یہ بات کافی حد تک واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان کو موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مرکز میں ایک مضبوط حکومت کی ضرورت ہے۔ اس کے بجائے، جو ہم بنیادی طور پر دیکھ رہے ہیں وہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش ہے کہ فیصلہ سازی ان لوگوں کے ہاتھ میں رہے جو عوام کو جواب نہیں دیتے۔ جس طرح سے سیاسی منظر نامے کی تشکیل ہو رہی ہے بلکہ انجینئرڈ ہونے کے ساتھ اس تناظر میں تباہی کا ایک یقینی نسخہ معلوم ہوتا ہے۔
ترجمہ اور ایڈیٹنگ۔ احتشام الحق شامی
(بشکریہ ڈان نیوز)
واپس کریں