دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
”ڈوب رہا ہے اور پھر بھی پیاسا ہے“
No image موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کے ساتھ، دنیا میں ہم سب کے لیے ڈوبنے کے لیے پہلے سے زیادہ پانی ہو سکتا ہے، لیکن ہم سب کے لیئے پینے کا صاف پانی بہت کم مقدار میں دستیاب ہو گا اورجنگیں پانی پر ہوں گی۔
فوسل فیول کارپوریشنز نے زمین پر موجود تمام زندگیوں کے لیے زندہ رہنے کو پہلے ہی بدتر بنا دیا ہے، دوسری کارپوریشنیں جو صاف پانی بیچنے کے کاروبار میں ملوث ہیں وہ پہلے سے زیادہ زمینی وسائل استعمال کر رہی ہیں۔ وہ کمپنیاں بنیادی طور پر زیرِ زمین خالص پانی کے حقوق حاصل کرتی ہیں۔
ہم بہت جلد ایک ایسی دنیا میں چلے جائیں گے جہاں صاف پانی صرف ان لوگوں کے لیے دستیاب ہوگا جو اسے خریدنے کی استطاعت رکھتے ہوں گے اور پاکستان کے معاملے میں یہ صرف ان لوگوں کے لیے ہو گا جو اونچی جگہوں تک رسائی رکھتے ہوں۔ یہ یقین کرنا کہ پانی کے کم ہوتے ذرائع کے ساتھ قومی ذہنیت بدل جائے گی؟ نہیں کرپشن اب بھی قومی محرک ہوگی جبکہ پانی کے حوالے سے اب بھی کرپشن اپنے عروج پر ہے لیکن پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کے اہم شہر کراچی کی مثال ہم سب کے سامنے موجود ہے۔
اس دنیا میں جہاں پینے کا صاف پانی عیش و عشرت بن جائے گا، غریب لوگوں کا کیا حشر ہوگا، یہ ایک خوفناک کہانی ہے۔ اگرچہ یہ سوچ خوفناک ہے، لیکن جو چیز اس سے زیادہ خوفناک ہے وہ اس وقت قومی سطح پر اس سنگین مسئلے کے بارے میں سوچنے کی کمی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی ایک ایسا اہم موضوع ہے جو ہم پاکستان میں نہ ہونے کے برابر سنتے ہیں۔
ایکپریس ٹریبیون میں شائع عمران جان کے کالم”ڈوب رہا ہے اور پھر بھی پیاسا ہے“سے اقتباس
ترجمہ اور ایڈیٹنگ: احتشام الحق شامی
واپس کریں