دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اداروں کو سیاست میں کون ملوث کررہا ہے؟
No image پاکستان کی سیاست میں فوج کا نام بار بار آنے اور مختلف سازشوں کے سبب اب فوج نے بھی اپنی جانب سے وضاحت پیش کرنی شروع کردی ہے اور سیاسی پارٹیوں کو ہدایت کی ہے فوج کا نام سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔اس سلسلے میں آئی ایس پی آر پاکستان فوج نے اتوار کو ایک جاری بیان میں کہا ہے کہ اسے سیاسی گفتگو سے دور رکھا جائے۔ پاکستان فوج کے ترجمان محکمے آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کہا کہ ’حال ہی میں جان بوجھ کر پاکستان کی مسلح افواج کو ملک میں جاری سیاسی گفتگو میں گھسیٹنے کی کوششیں تیز ہوئی ہیں۔’یہ کوششیں مسلح افواج کے ساتھ ساتھ اس کی اعلیٰ قیادت کے حوالے سے براہ راست، واضح یا مختصر حوالوں سے ظاہر ہوتی ہیں، جو کچھ سیاسی رہنماؤں، چند صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے عوامی فورمز اور سوشل میڈیا سمیت مختلف مواصلاتی پلیٹ فارمز پر کیں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ غیر مصدقہ، ہتک آمیز اور اشتعال انگیز بیانات اور ریمارکس کا یہ عمل انتہائی نقصان دہ ہے۔ ’پاکستان کی مسلح افواج اس طرح کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے سب سے توقع رکھتی ہیں کہ وہ قانون کی پاسداری کریں اور مسلح افواج کو ملک کے بہترین مفاد میں سیاسی گفتگو سے دور رکھیں۔‘واضح رہے کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ ماہ سینیئر ریٹائرڈ فوجی حکام نے ان سے منسوب کی گئی ان آڈیو کلپس کو جن میں پاک فوج اور اس کی قیادت کے خلاف بیانات دیے گئے تھے ان کو ’جعلی‘ قرار اور ’پاک فوج کے خلاف سازش‘ قرار دیا تھا۔ ریٹائرڈ فوجی حکام کی طرف سے یہ وضاحتیں ایک ایسے موقع پر سامنے آئی تھیں جب اس سے دو دن قبل ہی ملک کی عسکری قیادت نے سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف جاری ’پروپیگنڈا مہم‘ کا نوٹس لیا تھا اور ملک میں سیاسی بحران پر فوجی قیادت کے مؤقف کی توثیق کی تھی۔
یاد رہے کہ ایک حالیہ انٹرویو میں عمران خان نے دعوٰی کیا ہے کہ وہ جانتے تھے کہ پی ڈی ایم گزشتہ جولائی سے ہی ان کی حکومت ختم کرنے کے منصوبے رکھتی تھی۔ یہاں وہ دلیل دیتے ہیں کہ اسی لیے وہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو عہدے پر برقرار رکھنا چاہتے تھے کہ وہ ان کی ”آنکھیں اور کان“ بن کر سازش کو جڑ پکڑنے سے پہلے ہی ختم کر دیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس فیصلے نے ان کے اور جی ایچ کیو کے درمیان خلیج پیدا کردی کیوں کہ جی ایچ کیو فوج کے داخلی معاملات میں تقرریوں اور تبادلوں کے حوالے سے کسی قسم کی مداخلت نہیں چاہتا۔
عمران خان کا لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا سہارا لینے اور اپنے بچاؤ کے لیے ان پر انحصار کرنے کا سلسلہ 2018 ء کے عام انتخابات تک پھیلا ہوا ہے جب ووٹوں کی گنتی کے دوران آرٹی سسٹم پراسرار طور پر بیٹھ گیا اور محیر العقول طریقے سے تحریک انصاف کا اسلام آباد کا راستہ صاف ہو گیا۔ اس کے بعد ”خود بخود“ ہی تحریک انصاف کو حکومت سازی کے لیے آزاد اراکین، مسلم لیگ ق، جی ڈی اے، ایم کیو ایم، بی اے پی وغیرہ کی معاونت بھی حاصل ہو گئی۔ گزشتہ سال آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں فوج کی ہائی کمان نے ”غیر جانبدار“ رہنے کا فیصلہ کیا۔ نہ تو عمران خان کو سہارا دیں گے اور نہ ہی انہیں چلتا کرنے میں حزب اختلاف کی مدد کریں گے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عمران خان نے اپنی نالائقی اور انتہائی بدعنوان حکومت کی وجہ سے خود کو سہارا دینے والوں کی ساکھ مجروح کردی تھی۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی ان کا جانا ٹھہر گیا۔ اس کے بعد سے اب تک عمران خان جنرل باجوہ کے فیصلے سے خار کھاتے ہوئے اشارۃً کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے میں آرمی چیف کا ہاتھ ہے۔
سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی کوئی شخص یا کچھ عناصر پاک فوج کو بدنام کرنے اور ملک میں بے یقینی پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اس کی نشاندہی کرنے یا قانونی طریقے سے باقاعدہ اس کی شکایت کرنے کا اہتمام کیوں نہیں کیا۔ فوج کے پاس اس حوالے سے متعدد آپشن ہیں۔ فورسز کے ایسے ارکان جن پر غیرمصدقہ الزامات عائد کئے گئے ہیں براہ راست ایسے عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مریم نواز نے گزشتہ روز پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر نکتہ چینی کی اور انہیں عمران خان کی حمایت میں سیاسی اپوزیشن کا گلا دبوچنے کا قصور وار قرار دیا۔ جنرل فیض حمید اگر اس الزام کو خلاف واقع اور اپنی عہدے کی بجائے ذاتی حیثیت پر حملہ تصور کرتے ہیں تو ان کے پاس قانون کا راستہ کھلا ہے۔ ملک کا قانون فوجی اہلکاروں سمیت سب شہریوں کو ناجائز الزام تراشی سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔
پاکستانی سیاست کا بھاری پتھر ملکی فوج نے گزشتہ 7 دہائیوں سے اٹھایا ہؤا ہے۔ اسی لئے یک بیک اس بیان کے بعد کہ اب فوج نیوٹرل ہوچکی ہے، سیاسی لیڈر، صحافی یا تجزیہ نگار فوج کے سیاسی کردار کو فراموش کرکے خاموش نہیں ہوسکتے۔ یا تو فوج وہائٹ پیپر قسم کے حقائق پر مبنی کسی دستاویز میں ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرکے یہ اعلان کرکے کہ کن وجوہات کی بنا پر اب اس نے سیاست سے کنارہ کشی کا فیصلہ کیا ہے اور یہ کہ اب کسی صورت اس فیصلہ سے روگردانی نہیں کی جائے گی۔ اس قسم کا انقلابی اقدام شاید فوج جیسے طاقت ور اور منظم ادارے کے لئے بھی ممکن نہ ہو ۔ البتہ ملک میں عام طور سے یہ تاثر موجود ہے کہ جیسے تحریک انصا ف کی حکومت کو 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے مسلط کیا گیا تھا اسی طرح، مارچ میں عمران خان کی سرپرستی سے انکار کرکے انہیں اقتدار سے محروم کردیا گیا۔
اس میں بھی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ امریکی سازش اور بیرونی مداخلت کا نعرہ لگاتے ہوئے عمران خان درحقیقت کسے نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایک پوڈ کاسٹ انٹرویو میں وہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ ان حالات سے بچنے کے لئے اپنی مرضی کا آئی ایس آئی کا سربراہ برقرار رکھنا چاہتے تھے تاکہ سیاسی مخالفین کا مقابلہ کرسکتے۔ عمران خان کا حامی اگرچہ امریکہ کو ’سازش‘ کا الزام دیتا ہے لیکن وہ اس کی کامیابی کے لئے فوج کو ہی ذمہ دار سمجھتا ہے۔ آئی ایس پی آر اور عسکری قیادت کو سمجھنا پڑے گا کہ اپنے ہاتھوں کھڑے کئے ہوئے اس عفریت سے نجات پانے کے لئے کچھ حقائق کوسرکاری طور سے سامنے لانا ضروری ہوگا۔ اسی طرح فوج غیر ضروری تہمت اور ملک انتشار اور بے یقینی سے بچ سکتا ہے۔
بشکریہ: شفقنا اردو
واپس کریں