دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عالمی رینکنگ میں 120 واں نمبر لیکن تنخواہوں میں مذید اضافہ
No image احتشام الحق شامی: محترم وزیرِ خزانہ اسحق ڈار کا فرمانا ہے کہ چیف جسٹس سمیت ججوں کی بنیادی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ 30 جون سے پہلے ہوجائے گا جبکہ حقیقت ِ حال یہ ہے کہ صرف سپریم کورٹ میں 54ہزار سے زائد مقدمات فیصلوں کے منتظر ہیں، اسی طرح دوسری جانب ہائی کورٹس میں زیر التوا مقدمات کی تعداد کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں۔جن غریب پاکستانی عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے ان ججوں کی تنخواہیں بڑھائی جا رہی ہیں یہی جج، انصاف کے متلاشی اور متاثرہ سائلین کے لیئے دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔بجائے اس کے کہ ان ججوں یعنی سفید ہاتھیوں کی بھاری مراعات، تنخواہیں اور پنشن میں کمی جاتی بلخصوص جن ججوں کی پیشہ وارانہ کارکردگی تسلی بخش نہیں بلکہ جو کھلم کھلا سیاست بازی،عمران نیازی کی سہولت کاری، بینچ بازی، نا مناسب اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث پائے جا رہے ہیں۔یہی نہیں بلکہ ان سفید ہاتھیوں کو گرمیوں کی عدالتی چھٹیاں ایسے دی جاتی ہیں جیسے انہوں نے تمام زیرِ التوا تمام مقدمات نمٹا دیئے ہیں اورکوئی کیس یا مقدمہ عدالت میں سننے کو موجود نہیں۔
گھٹنوں کے بل گری ہوئی معیشت اورغیر ملکی قرضوں کی دلدل میں ڈوبے ہوئے اس ملک کے ان سفید ہاتھی نماء ججوں کو اخلاقی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے از خود ہی اپنی تنخواہوں،مراعات اور پنشن میں کمی کا اعلان کر دینا چاہیئے تھا۔محترم اسحق ڈار صاحب مذکورہ سفید ہاتھیوں کی تنخواہوں کو بڑھانے سے قبل اس حقیقت کو بھی دیکھ لیتے کہ موجودہ دور میں پاکستان کا دفاعی بجٹ تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے، ملک کا دفاعی بجٹ اس سال 12.5 فیصد کے قریب ہے جو گزشتہ سال یہ 16 فیصد تھا۔گویا کمزور معیشت کے باعث اگر فوج بھی کم بجٹ میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر رہی ہے تو انتہائی مراعات یافتہ جج صاحبان کو بھی کم از کم از خود اپنے کمفرٹ کی قربانی دینی چاہیئے تھی۔
لوئر کورٹس ہی نہیں بلکہ ہائی کورٹس لے کر سپریم کورٹ تک انصاف کی سرِ عام بکری کسے معلوم نہیں، عدالتوں میں ریڈر کو رشوت دیئے بغیر اگلی تاریخ نہیں ملتی اور اگر فیصلے کی نقل یا کاپی درکار ہو تو بھی خرچہ لگانا پڑتا ہے۔ مہذب دنیا میں متاثرہ یا انصاف کے متلاشی لوگ عدالتوں میں پہنچتے ہی سکھ کا سانس لیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں لوگ عدالتوں میں جانے سے بھی پناہ مانگتے ہیں اور جو بے چارے جاتے بھی ہیں، عدالت کے دروازے پر دھکے،زلالت اور خواری ان کا استقبال کر رہی ہوتی ہے۔ جس کا وجہ ظاہر ہے کہ عدالتی نظام کی عالمی رینکنگ میں، 128 میں سے پاکستان کا 120واں نمبر ہے جبکہ اس رینکنک میں پاکستان سے نیچے افغانستان ہے، جس کا 122 واں نمبر بنتا ہے۔
واپس کریں