دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
چینی ماڈل کو ایک بار آزمائیں | خاور عباس سندھو
No image چینی تہذیب بار بار اس مشق سے گزری ہے کہ نئے چیلنجوں سے کیسے نمٹا جائے۔ کمیونسٹ پارٹی کی جدوجہد سے ابھرنے والی عوامی جمہوریہ چین نے اب کثیر الجماعتی تعاون کا نظام قائم کر لیا ہے۔ چین کا سیاسی نظام بہت دلچسپ ہے۔ چین کے جمہوری نظام حکومت پر یک جماعتی نظام کا الزام لگانے والی ریاستوں کی معیشتیں، ٹیکنالوجی اور یہاں تک کہ سیاحت بھی چین کے مقابلے میں پیچھے رہ گئی ہے، لیکن ان کا پروپیگنڈا ختم نہیں ہو رہا۔ کمیونسٹ پارٹی چین میں آٹھ مختلف جماعتوں کی حمایت سے حکومت چلاتی ہے جن میں چینی کومنتانگ کی انقلابی کمیٹی، چائنا ڈیموکریٹک لیگ، چائنا نیشنل ڈیموکریٹک کنسٹرکشن ایسوسی ایشن، چائنا ایسوسی ایشن فار پروموٹنگ ڈیموکریسی، چینی کسان اور ورکرز ڈیموکریٹک پارٹی، چائنا ژی گونگ پارٹی، جیوسن سوسائٹی، تائیوان ڈیموکریٹک سیلف گورنمنٹ لیگ جو ریاستی امور کو چلاتی اور مشورہ دیتی ہے۔
چین اپنی تاریخ اور موجودہ دور کے لحاظ سے ایک دلچسپ ملک ہے۔ اس کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے اور سماجی ارتقا اور بہت سے انقلابات سے متاثر ہے۔ اس وقت چین دنیا کا واحد ملک ہے جس نے مقررہ وقت سے پہلے غربت کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔
اس کے باوجود سامراجی طاقتوں کے مفادات کے تابع مغربی میڈیا نے پروپیگنڈہ مہم کے تحت دنیا کی واحد سپر پاور کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے چین کو ایک معمہ بنانے اور حقائق کو مسخ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ لیکن زمینی حقیقت کے مطابق کوئی بھی اس پروپیگنڈے پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اگر ہم تجارت، تعلیم، کاروبار، ٹیکنالوجی یا سیاحت کی بات کریں تو دنیا کا چین کی طرف رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔
چند روز قبل بیجنگ میں چائنہ انٹرنیشنل ریڈیو کی ایک صحافی جس کا پاکستانی نام تبسم ہے، نے سیاحت کے حوالے سے بات کی اور زندہ دل لوگوں کے شہر لاہور کا ذکر کیا۔ میں نے کہا کہ لاہور کے بارے میں ایک بات مشہور ہے تو اس نے فوراً کہا کہ ہاں وہ پیدائشی ہے۔ میں نے مسکرا کر پوچھا کہ کیا لاہور جیسی شہرت چین میں بھی ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا، اس نے کہا ہاں گریٹ وال۔ جس نے عظیم دیوار نہیں دیکھی وہ بہادر نہیں ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق روزانہ 70 ہزار اور سالانہ 20 ملین سے زائد سیاح گریٹ وال کا دورہ کرتے ہیں۔ اور یہ دنیا کا سب سے زیادہ دیکھنے والا سیاحتی مقام ہے۔ عوامی جمہوریہ چین واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ سیاح آتے ہیں۔ 2019 میں، چین میں بین الاقوامی آمد تقریباً 145.3 ملین تھی، جو پچھلے سال کے 141.2 ملین سے زیادہ تھی۔ سیاحت کے پیچھے وجوہات کچھ بھی ہوں، سیاحوں کی ایسی جگہوں کی طرف راغب ہونا جن کے بارے میں کچھ معلوم ہوتا ہے۔ اور زندہ دلی زندہ معاشروں کی عکاسی کرتی ہے۔
عوامی جمہوریہ چین کے کامیاب سیاسی ماڈل میں سیاحت سمیت ہر شعبے نے ترقی کی ہے۔ چین میں ایک اور دلچسپ چیز دیکھنے کو ملی۔ ترقی میں شہروں کے درمیان مقابلہ ہے۔ ہر شہر کی قیادت دوسرے شہروں پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہے۔ Yicai.com کی رپورٹ کے مطابق، جیانگ سو صوبے میں 2022 میں سب سے زیادہ شہر 100 شہروں کی معیشتوں کے طور پر درج ہیں۔ ساحلی صوبے کے تمام 13 شہروں نے 400 بلین یوآن ($ 58.3 بلین) سے زیادہ کی پیداوار کے ساتھ سرفہرست 100 جی ڈی پی کی فہرست میں جگہ بنائی۔
ملک میں اب 24 شہر ہیں جن کی جی ڈی پی 1 ٹریلین یوآن سے زیادہ ہے۔ شنگھائی، جو ٹاپ 100 کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے، کی جی ڈی پی 4.46 ٹریلین یوآن (664 بلین امریکی ڈالر) سے زیادہ تھی۔ بیجنگ 2022 میں 4.16 ٹریلین یوآن (US$624.5 بلین) سے زیادہ کی جی ڈی پی کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ 2022 میں سب سے بڑے جی ڈی پی کے ساتھ سرفہرست 100 چینی شہروں کی کل اقتصادی مجموعی 85.1 ٹریلین یوآن تک پہنچ گئی، جو ملک کے کل کا 70.3 فیصد ہے۔
2022 میں سب سے زیادہ جی ڈی پی کے ساتھ سرفہرست 10 چینی شہروں کی معیشتوں میں شنگھائی، بیجنگ، شینزین، چونگ کنگ، گوانگ زو، سوزو، چینگڈو، ووہان، ہانگژو اور نانجنگ شامل تھے۔ سب سے کم برائے نام جی ڈی پی والے صوبے تبت تھے (213.3 بلین RMB؛ تقریباً 31.7 بلین امریکی ڈالر)۔ تبت صوبے کی جی ڈی پی چین میں سب سے کم تھی لیکن یہ پاکستان سمیت کئی ممالک سے زیادہ ہے۔
چینی نظام میں ہر شہری کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع ہیں۔ دولت چند ہاتھوں میں نہیں گئی۔ دوسری طرف مغربی جمہوریت دنیا کو اشرافیہ کی طاقت، گروہی مفادات کے تحفظ اور طبقاتی نظام کی تقسیم سے زیادہ کچھ نہیں دے سکی۔ مغرب کی رائج جمہوریت اور آزاد معیشت میں صرف چند سو افراد دنیا کی 98 فیصد دولت کے مالک ہیں جب کہ دنیا کی 70 فیصد سے زیادہ آبادی اب بھی غربت کا شکار ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں جمہوریت، شخصی آزادی، انسانی حقوق اور آزاد تجارت کے نام پر سب سے زیادہ استحصال کیا جاتا ہے۔
آج چین کا جمہوری مرکزی سیاسی نظام غربت کے مکمل خاتمے، معاشی ترقی اور خوشحالی کی دنیا کے سامنے ایک مضبوط مثال بن چکا ہے۔ صرف چند سالوں میں چین نے 800 ملین افراد کو غربت سے نکال کر دنیا کے سامنے ایک عظیم مثال قائم کی کہ نہ صرف جمہوریت بلکہ انصاف، شراکت اور مساوات کی بنیاد پر بنایا گیا کنٹرولڈ نظام دنیا سے غربت کا خاتمہ کر سکتا ہے۔
واپس کریں