دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عمران خان اور بارہ مصالحوں کی چاٹ
No image تحریر: حسنین جمال:::عمران خان کے پاس پرسنیلٹی کے ساتھ بارہ مصالحوں کی چاٹ اس وقت موجود ہے۔

اتر جانے کے بعد بھی وہ میڈیا پہ چھائے ہوئے ہیں۔ پاکستانی عوام جو کچھ سننا چاہتے ہیں وہ (سچ یا جھوٹ) جتنا کھل کے بول سکتے ہیں، بول رہے ہیں۔

لوگ جتنا مرضی مزاق اڑائیں وہ اپنا موقف پانچ سال سے ایک ہی قسم کی تقریر کے اندر بڑی مہارت سے گھول کر انجیکٹ کرتے جا رہے ہیں۔ انہیں صرف بندہ چاہیے اور کیمرہ، بندہ نہ بھی ہو تب بھی وہ اکیلے دو گھنٹے نکال جاتے ہیں۔

باقی جماعتوں کا ڈیجیٹل ونگ انتہائی کمزور ہے۔ دس اور سو کا مقابلہ ہے۔

عقلمندی اسی میں ہے کہ بجائے شاخوں پہ آنیاں جانیاں دکھانے کے، ہر جماعت سنجیدگی سے اپنے سوشل میڈیا کو جدید طریقوں پر چلائے۔

یقین کیجیے کہ نئی اشرافیہ، نئی مقتدرہ یا نئی طاقت سوشل میڈیا پہ سیاسی جماعت کا چہرہ ہے۔

ٹی وی ریڈیو پرانے ہو چکے ہیں اور لمبے سیاسی کالم پڑھنے کی بجائے لوگ یو ٹیوب فیس بک پہ خود تبصرہ کر دینا پسند کرتے ہیں۔

ایف آئی آر کٹنے سے پہلے ٹویٹ ہوتی ہے اور صبح تک پریشر اتنا بن چکا ہوتا ہے کہ پورا مقدمہ سوشل میڈیا پہ ہر کوئی اپنے انداز سے سمجھا رہا ہوتا ہے۔

کوئی نہیں دیکھ رہا آپ نے آئین میں کیا باریک تبدیلیاں کیں، کسی کو علم نہیں کہ آپ ترقیاتی کام کیا کر رہے ہیں، کسی کو بال برابر نئیں فکر کہ خزانہ خالی ہے یا بھرا ہوا، پریس کانفرنسوں میں کون کیا دلائل دے رہا ہے عوام کی بلا سے!

وہ ڈائیریکٹ کمیونیکیشن چاہتے ہیں اور مسلسل ہیمرنگ، جس طرح پی ٹی آئی کر رہی ہے۔

پی ٹی آئی کا سیاسی ولی وارث کوئی نہیں فی الحال مگر آپ کے تو ہیں۔ کیوں ان کی روزی کے پیچھے پڑے ہیں؟

خان صاحب دوبارہ آئیں یا نہ آئیں، آپ سب کو چنگا بھلا گاڑ کے جائیں گے۔

فیک ہو، اصلی ہو، پیسے دے کر بنا ہو یا کوئی رضاکار بنا دے۔ پورا سوشل میڈیا سیٹ اپ چاہیے اس وقت ہر اپوزیشن جماعت کو۔

اپوزیشن اس لیے بولا کہ حکومت میں رہ کے بھی آپ عمران خان کا بیانیہ رد کر سکے اور نہ ہی ان کے کسی ایک سپورٹر کو اس کی 'راہ راست' سے ہٹا سکے۔

آپ کے اردگرد وہ لوگ ہیں جو روایتی طریقے سے سیاست پہ یقین رکھتے ہیں لیکن خود روایت اب بدل رہی ہے۔

پاکستان مکمل طور پہ عمران خان بمقابلہ نان عمران خان میں بدل چکا ہے۔

غلط وقت پہ ہٹنے سے ان کے سارے مسئلے نئی حکومت کو جہیز میں مل چکے ہیں اور خان صاحب ہاتھ جھاڑ کے اگلے الیکشنوں کی تیاری میں ہیں۔

دانشوروں کے بجائے ٹرینڈنگ پہ انویسٹ کریں، لیپ ثاپ کی بجائے اب موبائل بانٹیں، فوری نظر آنے والے کام کریں چاہے معیشت ٹنگی رہے، موبائلوں پہ سے وہ رجسٹریشن والی تلوار ہٹا دیں، فری لانسروں کے لیے مراعات نکالیں، نیوم شہر سمیت جہاں جہاں نئی دنیا آباد ہو رہی ہے وہاں یوتھ کو کھپائیں، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی قیمتیں کنٹرول کریں، چھوٹے شہروں اور دور دراز علاقوں میں فوری نوعیت کے وہ کام کریں جن سے عام آدمی کو پتہ لگے کہ اس کے لیے بہتر ہوا ہے، بڑے شہر والے ہاتھ نہیں آئیں گے فی الحال۔

ماحولیات پہ دنیا سیاست کر رئی ہے، خان صاحب نے درختوں پہ کی، آپ پانی پہ کر لیں مگر کریں۔ ایسی کریں جو نظر آئے جیسے بلین ٹری سونامی زمین پہ بھلے ہو گا لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے اس کی بازگشت لندن، سعودی عرب سمیت امریکہ تک گئی۔

آپ دل جان سے مخلص ہوں ملک کے ساتھ لیکن ملک کے لوگ ششکا چاہتے ہیں اور وہ بھی شدید والا! وہ اس کے عادی ہو چکے ہیں!

سیاست پہ لکھنے والے بہت سے پرانے دوست اس پوسٹ کو نظرانداز کر دیں اور مسکرا کے سمجھ لیں کہ سالا یہ بھی اب اس موضوع پہ لکھے گا؟

آپ باریک بین ہیں، میں وہ چشمہ لگا کے دیکھ رہا ہوں جو سڑک پہ خان صاحب کی ایک کال پہ گھنٹوں نکلے ہوئے بچے لگاتے ہیں۔ انہیں ویڈیو سے بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا!

واپس کریں