دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اگلے الیکشن کا کیا منظرنامہ بن رہا ہے؟
No image یہ سیاسی اور انتخابی حقیقت ہے کہ نو مئی کے سانحے نے ملکی سیاست بدل دی ہے اور ملک کے سینیئر سیاست دان جہانگیر ترین نے تحریک انصاف کے متبادل نئی سیاسی جماعت ’استحکامِ پاکستان پارٹی‘ کا باضابطہ اعلان اور پارٹی کا ابتدائی ایجنڈا اور منشور پیش کر دیا ہے۔20 سے زائد سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی، سابق وفاقی وزرا اور ملک کی سرکردہ سیاسی شخصیات پارٹی میں شمولیت اختیار کر کے ملک میں تیسری بڑی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ دی ہے۔خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین نے تحریک عدم اعتماد میں ان کی معاونت کی تھی جس کی بنیاد پر عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہونا پڑا، لہٰذا انتخابی اتحاد کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
فارمیشن کمانڈرز کانفرنس نے نو مئی کے واقعات کو ریاست اور اداروں کے خلاف نفرت اور ملک میں افراتفری پھیلانے کا منصوبہ قرار دیتے ہوئے ان کے ماسٹر مائنڈ کے گرد گھیرا تنگ کرنے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ان منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈز کے خلاف قانون کی گرفت مضبوط کی جائے۔اسی پس منظر کی گہرائی کا جائزہ لیا جائے تو صورت حال یہ ہے کہ اب عمران خان کے لیے خود کو بچانا تو دور کی بات اپنی 27 سالہ تحریک انصاف بچانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔
قومی انتخابات تک تحریک انصاف کس نتیجہ خیز مرحلے سے گزرے گی کہنا قبل از وقت ہے۔ بظاہر زیادہ امکان یہی نظر آ رہا ہے کہ شاہ محمود قریشی عمران خان کے جانشین کی حیثیت سے ناکام ہو جائیں گے اور عمران خان کی نااہلیت اور سزا کے بعد ان کی پارٹی خودبخود منتشر ہو کر کئی نام نہاد گروپوں میں تقسیم ہو جائے گی اور لامحالہ استحکامِ پاکستان پارٹی ہی ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت سے آئندہ انتخابات میں حصہ لے گی۔

قرائن بتا رہے ہیں کہ یہ ملک کی تاریخ کا پہلا الیکشن تصور کیا جائے گا جس میں نفرت، الزامات اور افراتفری کی الیکشن مہم نہیں ہو گی اور ہر پارٹی اپنے اپنے تعمیری منشور کو ہی لے کر آگے بڑھے گی۔جہانگیر ترین کے لیے مشکل مرحلہ پارلیمانی بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے سامنے آئے گا جب پارٹی کے ٹکٹوں کی تقسیم کا وقت آئے گا۔ میرے تجزیے کے مطابق جہانگیر ترین اور ان کے اہم ترین تھنک ٹینک کے ماہرین تحریک انصاف سے آنے والے ارکان اسمبلی کو آئندہ کے لیے ٹکٹ نہیں دیں گے جو ارکان قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی تحریک انصاف سے استحکامِ پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں ان کو آئندہ کے انتخابات سے باہر رکھنا ہی جہانگیر ترین کے لیے کڑا امتحان ہو گا۔
ان ارکان کو بھی جمہوری طور پر آئندہ الیکشن میں حصہ لینے سے گریز کرنا ہو گا کیونکہ ان ارکان نے عمران حان کی حکمت عملی اور ریاستی اداروں کے خلاف تحریک چلانے پر پارٹی سے علیحدہ ہونے کا عندیہ نہیں دیا بلکہ ان کے عزائم میں برابر کے شریک رہے۔

میرے تجزیے کے مطابق ان ارکان کو آئندہ انتخابات سے باہر ہی رکھا جائے گا اور نئے نوجوان، اور ملک کی بہترین قیادت کو آگے لانے کے لیے جہانگیر ترین کو قربانی دینی پڑے گی۔ابتدائی مرحلہ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے واضح کر دیا ہے جس کے مطابق ملک میں ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ 60 لاکھ ہے جن میں مرد ووٹرز کی تعداد چھ کروڑ 80 لاکھ جب کہ خواتین ووٹرز پانچ کروڑ 75 لاکھ ہیں۔

اس وقت الیکشن کمیشن کے سامنے حقیقی مسئلہ آزادانہ، منصفانہ انتخابات، قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد جلد از جلد انعقاد ہے۔ اشتعال انگیزی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ قومی زندگی کو نقصان ہو گا۔تاہم دیکھنا یہ ہے کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے بنیادی تقاضے کیا ہیں؟ اس کے لیے چند بنیادی اصول مدنظر رکھنے ضروری ہیں۔

1 انتخابات کے تسلسل سے انعقاد جمہوریت کا جزو ہے۔ 1945 کا انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ آرٹیکل 21 (3) اس بنیادی اصول کو ختم کرتا ہے تاہم 1975 کا سیاسی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ آرٹیکل 4 وضاحت کرتا ہے کہ عوامی ہنگامی صورت حال میں اگر قومی زندگی کو خطرہ لاحق ہو جائے تو حالات کی مناسبت سے رکن ممالک انتخابات کی قانونی معیاد میں توسیع کر سکتے ہیں۔

2 انتخابات کے انعقاد کی مقررہ مدت کو حتمی قرار دینا آئین کی درست تشریح نہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی قررہ وقت کو حتمی اور قطعی نہیں ترجیحی تصور کیا ہے۔ اس ضمن میں نظریہ ضرورت کا اطلاق صریحاً غلط ہے۔ آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 218(3) کے تحت آئینی ذمہ داری ہے، لہٰذا الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئین کے مطابق بااختیار، مستحکم اور منظم بنانا اوّلین ضرورت ہے۔

اس ضمن میں ضروری ہے کہ عدالت انتخابات کے امور میں الیکشن قوانین کا سختی سے اطلاق کرے۔ عدالت اور عوام کا الیکشن کمیشن پاکستان پر یکساں اور مکمل اعتماد ہونا چاہیے۔ آئین کے آرٹیکل 184(3) اور 199 جیسی آئینی شقوں پر انحصار قوانین کے یکساں نفاذ میں حائل ہوتا ہے۔موجودہ بحران جو پارلیمان اور عدالتِ عظمیٰ کے تعطل سے جڑا ہوا ہے، اداروں کی انا کا معاملہ نہیں بننا چاہیے۔ اس پس منظر میں عدالت اور پارلیمان کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا وگرنہ کوئی اور ان کی جگہ لے لے گا، یہی قدرت کا نظام ہے، قدرت کے نظام میں خلا کا تصور نہیں پایا جاتا۔
واپس کریں