دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جنٹل مین بن کر تو دکھاؤ
No image پانچویں کے بعد ہائی سکول میں داخلہ لیا تو انگریزی پڑھنی شروع کی۔ایک دن چھٹی کی درخواست لکھواتے ہوئے استاد صاحب نے I beg to say لکھوایا تو ہاتھ پتھر کے ہو گئے۔دل نے آواز دی کہ چھٹی کوئی دے یا نہ دے لیکن یہ بھیک نہیں مانگی جا سکتی کہ‏ I beg to say‏ابھی دماغ میں Beg کی ذلت کا احساس ختم نہیں ہوا تھا درخواست ختم بھی ہو گئی۔ اب کی بار درخواست کے اختتام پر استاد جی نے لکھوایا
‏Your obedient servant‏اب تو کنپٹیاں ہی سلگ اٹھیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں خود کو کسی کا تابع فرمان قسم کا نوکر قرار دے دوں؟
‏وکالت کے شعبے میں آیا تو یہاں بھی وہی تذلیل دیکھی جو انصاف مانگنے آتا تھا اسے سائل کہا جاتا تھا۔ سائل ہماری عدالتوں اور کچہری میں ہمیشہ عرض گزار ہی پایا گیا، انصاف مانگا نہیں جا سکتا تھا۔
سائل یہ مطالبہ نہیں کر سکتا تھا کہ انصاف دیا جائے، مگر ہاں وہ Prayer یعنی التجا اور درخواست پیش کر سکتا تھا
‏میں بیٹھ کر سوچتا کہ اگر عدالت بنی ہی انصاف دینے کے لیے ہے اور اگر اللہ کا حکم ہے کہ انصاف کرو یہ تقوی کے قریب تر ہے تو پھر اس بنیادی انسانی حق کے حصول کا مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا، گڑگڑاتے لہجوں میں مسکینی طاری کر کے Prayer کیوں کی جا تی ہے بلکہ باوقار طریقے سے ڈیمانڈ کیوں نہیں کی جاتی
‏بہت بعد میں پتہ چلا کہ یہ سب اتفاق نہیں ہے بلکہ یہ برطانوی دور غلامی میں سکھائے گئے غلامی کے وہ آداب ہیں جو ہمارے لہو میں دوڑ رہے ہیں۔
انگریز لکھاریوں نے ہمیں آداب غلامی سکھانے کے لیے باقاعدہ کتابیں لکھیں، ان میں سے ایک کتاب ڈبلیو ٹی ویب نے لکھی جس کا عنوان ہے
‏English etiquette for Indian gentlemenیہ کتاب کم اور غلامی کی دستاویز زیادہ ہے اس میں ایک ایک کر کے مقامی لوگوں کو بتایا گیا کہ اب ان کا دور نہیں رہا، ان کی تہذیب بھی پرانی ہو چکی۔
نئے آقا اب جو چاہتے ہیں انہیں اسی تہذیب کو اپنانا ہو گا۔‏ڈبلیو ٹی ویب کی اس کتاب میں بعض مقامات پر واضح طور پر آداب غلامی سکھائے گئے ہیں
‏تفصیل سے بتایا گیا ہے انگریز کے حضور حاضر ہونے کے آداب کیا ہیں، اس سے ملنے کے آداب کیا ہیں، اس سے مخاطب کیسے ہونا ہے۔
مقامی یعنی ہندوستانی ڈیزائن کے جوتے پہن کر جانا ہے تو جوتے باہر برآمدے میں اتار کر اندر حاضر ہونا ہے، ایسے جوتے پہن کر انگریز کے حضور حاضر ہونا اس کی توہین ہے
‏خبردار سلام کے لیے اس وقت تک ہاتھ نہ بڑھایا جائے جب تک صاحب یا میم خود تمہیں اس قابل نہ سمجھیں
‏کسی انگریز کو صرف اس کے نام سے نہیں پکارنا القابات لگانا ضروری ہے، کسی یورپی سے سر راہ ملاقات ہو جائے تو ادب کے تقاضے کیسے پورے کرنے ہیں اور ان میں سے کسی کو مدعو کرنا ہے تو میزبانی کے آداب کیا ہوں گے، وغیرہ وغیرہ
‏مقامی تہذیب کو مکمل طور پر قصہ پارینہ قرار دیتے ہوئے سونے سے جاگنے تک اور جاگنے سے سونے تک، ہر معاملے اور ہر لمحے میں انگریزی طور طریقے سکھائے گئے ہیں۔ کھانا کیسے کھانا ہے۔ چھری کانٹا کیسے استعمال کرنا ہے۔
ہاتھ سے کھانا ایک برائی ہے
خبردار جو کسی جنٹل مین نے گوشت ہاتھ سے کھایا
‏انگریزوں کی حساسیت کا خیال رکھنے کا بار بار “حکم” دیا گیا ہے لیکن مقامی لوگوں سے کہا گیا ہے کہ تمہاری بے عزتی ہو جائے تو برا نہ مانا کرو
‏اور ہاں اگر تم معزز بننا چاہتے ہوں تو شادی کے دعوت ناموں میں چشم براہ جیسی فضولیات کی جگہ RSVP لکھا کرو۔
انگریز کو یہاں سے گئے آج پون صدی ہو گئی ہے لیکن ہمارے شادی کے دعوت ناموں سے RSVP ختم نہیں ہو سکا
ہم آج بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے معززین بننے کے چکروں میں ہیں
‏مقامی تہذیب و اقدار کی تذلیل پر مشتمل عمومی “ادب و آداب” کے بیان میں اگر کوئی کسر رہ گئی تھی کتاب کے آخر میں درخواست لکھنے کے آداب‘ لکھ کر کے پوری کر دی گئی۔
باب نمبر گیارہ میں بتایا گیا ہے کہ درخواست، پیٹیشن وغیرہ کیسے لکھی جائیں اور ساتھ ہی نمونے کے طور پر کچھ درخواستوں اور پیٹیشنز لکھی گئی ہیں کہ ان کو دیکھ کر ’مقامی جنٹل مین‘ رہنمائی حاصل کریں۔
‏ان تمام درخواستوں میں چند چیزیں اہتمام سے بتائی گئی ہیں
‏اول:
‏درخواست کی شروعات، جو انتہائی غلامانہ، فدویانہ اور ذلت آمیز انداز سے کی گئی ہیں۔
مثال کے طور پر I beg to say کا انداز سکول کے بچوں کی درخواست سے لے کر سرکاری عرضیوں تک ہر جگہ استعمال کیا گیا ہے تا کہ سکولوں سے ہی بچے یہ سیکھ لیں کہ کہ آداب غلامی کیا ہوتے ہیں اور کیسے ایک دن کی چھٹی کی درخواست کا آغاز بھی Beg سے ہوتا ہے
‏دوم:
‏ہر درخواست کے آخر پر Your servant،Your most obedient servant، جیسے الفاظ لکھے گئے تھے تا کہ مقامی لوگوں کو یہ معلوم ہو رہے کہ انکی اوقات نوکر اور رعیت سے زیادہ نہیں
‏یہ ایک پوری تہذیبی واردات تھی جو اس سماج پر مسلط کی گئی۔چونکہ اہم مناصب پر پھر یہی
‏’مقامی جنٹل مین‘ فائز ہوئے اور نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد یہی افسر شاہی ہمیں ورثے میں ملی اور کسی نے اس سماجی واردات پرنظر ثانی کی ضرورت محسوس نہیں کی اس لیے یہ ’مقامی جنٹل مین‘ آج بھی ’ انگریزی آداب‘ سے سماج کی پشت لال اور ہری کیے ہوئے ہیں۔
‏اس جنٹل مینی کے خلاف پہلی آواز دلی سے اٹھی۔ لعل گوردیج نامی ایک مداری دلی کے چوراہے میں بندر لے کر آتا اور ڈگڈگی بجا کر اسے کہتا : جنٹل مین بن کے دکھا۔لعل گوردیج کا بندر ہیٹ لگاتا ، چشمہ پہنتا اور پورا ’ جنٹل مین‘ بن جاتا۔ بندر اور مداری دونوں کو گرفتار کر لیا گیا۔مقامی جنٹل مین ناراض ہو گئے۔
(دل چسپ بات یہ ہے کہ بندر نچانے والے آج بھی بندر نچاتے وقت یہ مطالبہ ضرور کرتے ہیں کہ جنٹل مین بن کے دکھا۔
شاید اسی لیے انگریز نے ان کا شمار
’مجرم قبیلوں‘ میں کیا ہوا تھا)
کبھی کبھی جب دن ڈھل رہا ہوتا ہے، مارگلہ سے اترتا ہوں تو یوں لگتا ہے جنگل سے بندر شور مچا مچا کر کہہ رہے ہوں:
‏’’جنٹل مین بن کر تو دکھاؤ‘‘۔
‏پہاڑ سے اترتا ہوں تو دیکھتا ہوں سارا ہی شہر جنٹل مین بنا ہوتا ہے۔
واپس کریں