دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد بھی ایک مولوی تھا۔
No image مونچھوں کو تھاؤ دیتے، ہاتھوں میں سگریٹ کا کش لگائے یہ مولوی،وقت کا امام ابوالکلام آزاد ہے۔آج کے دستار بند و دماغ بند مولوی اسے کبھی اپنا آئیڈیل قبول نہیں کریں گے۔ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کے حیثیت سے منصب سنبھالا اور ہندو قوم کو تعلیم کے اس میدان تک پہنچایا کہ آج دنیاء کے بڑی مائیکروسوفٹ کمپنیاں ان پر رشک کرتے ہیں کینڈا سے لیکر امریکی ایوانوں تک انڈین نیشنیلٹی کے لوگ پہنچ چکے ہیں۔
یہ کون تھا آیئے تاریخ سے پوچھتے ۔آغاء شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ جونہی مولانا کی رحلت کا اعلان ہوا سینکڑوں لوگوں کا سنّاٹا چیخ و پکار سے تھرّا گیا ۔ دن چڑھے لگ بھگ دو لاکھ انسان ، آزاد کے کوٹھی سے باہر جمع ہو گئے تمام ہندوستان میں سرکاری و غیر سرکاری عمارتوں کے پرچم سرنگوں کر دیئے گئے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں ماتمی ہڑتال ہو گئ ،دہلی میں ہُو کا عالم تھا حتی کہ بینکوں نے بھی چھٹی کر دی ایک ہی شخص تھا جس کیلئے سب کے آنکھوں میں آنسوں تھے ۔
پنڈت جواہر لال نہرو کی بے چینی کا یہ حال تھا کہ ایک رضاکار کی طرح عوامی ہجوم میں گھس جاتے پنڈت جی نے اپنے دائیں بائیں سیکیورٹی افسروں کو دیکھا تو ان سے پوچھا ۔ "آپ کون ہیں ؟"
کیوں کھڑے ہیں میرےآگے پیچھے؟"آپ کی حفاظت کیلئے"
"کیسی حفاظت ؟ موت تو اپنے وقت پر آ کے رہتی ہے بچا سکتے ہو تو مولانا کو بچا لیتے؟"
جنازہ اٹھا ، پنڈت نہرو ، مسٹر دھیبر ، صدر کانگرس ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، جنرل شاہ نواز ، پروفیسر ہمایوں کبیر ، بخشی غلام محمد اور مولانا کے ایک عزیز جنازہ گاڑی میں سوار تھے ۔ ان کے پیچھے صدر جمہوریہ ہند ، نائب صدر اور مرکزی و صوبائی وزراء کی گاڑیوں کی لمبی قطار تھی ۔
ہندوستانی فوج کے تینوں چیفس جنازے کے دائیں بائیں تھے ۔ دریا گنج سے جامع مسجد تک ایک میل کا راستہ پھولوں سے اَٹ گیا جب میت کو پلنگ پر ڈال دیا گیا سب سے پہلے صدر جمہوریہ نے پھول چڑھائے ،پھر وزیراعظم نے اس کے بعد غیر ملکی سفراء نے ، کئ ہزار برقعہ پوش عورتیں مولانا کی میت دیکھتے ہی ڈھائیں مار مار کر رونے لگیں ان کے ہونٹوں پر ایک ہی بول تھا "مولانا آپ بھی چلے گئے ہمیں کس کے سپرد کیا ہے ؟ ہندو دیویاں اور کنیائیں مولانا کی نعش کو ہاتھ باندھ کر پرنام کرتی رہیں ۔
مولانا احمد سعید دھلوی نے دو بج کر پچاس منٹ پر نماز جنازہ پڑھائ ۔
المختصر مولانا کو دفنانے کے بعد ہم ان کی کوٹھی میں گئے تو کچھ دیر بعد پنڈت جواہر لال آ گئے ۔ اور سیدھا مولانا کے کمرے میں چلے گئے پھر پھولوں کی اس روش پر گئے جہاں مولانا ٹہلا کرتے تھے ۔ ایک گچھے سے سوال کیا ۔
"کیا مولانا کی موت کے بعد بھی مسکراؤ گے ؟
کاش، پاکستان میں کوئی ایک مولوی اس شخصیت کے رول ماڈل کو اپنا تھا۔۔مگر نا ممکن !!
اللہ پاک ہمیں حقیقی طور پر آزاد کو سمجھنے کی توفیق دے ۔۔
واپس کریں