دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان کو کیسے برباد کیا گیا
No image ایک بادشاہ کا گزر ایسے علاقے سے ہوا جہاں لوگ سیدھا نہر سے ہی پانی لیکر پیتے تھے بادشاہ نے حکم دیا عوام کی سہولت کیلئے ایک گھڑا بھر کر رکھ دیا جائے تاکہ ہر چھوٹا بڑا سہولت کیساتھ پانی پی سکے، بادشاہ یہ کہہ کر آگےبڑھ گیا شاہی حکم پر ایک گھڑا خرید کر ‏نہر کنارے رکھا جانے لگا تو ایک اہلکار نےمشورہ دیا یہ گھڑا عوامی دولت سے خرید کر شاہی حکم پر یہاں نصب کیا جارہا ہے، ضروری ہے کہ اسکی حفاظت کا بندوبست کیاجائے اور ایک سنتری کو چوکیداری کیلئے مقرر کیا جائے سنتری کی تعیناتی کے حکم ملنے پر یہ قباحت سامنے آئی کہ گھڑا بھرنے کیلئے ماشکی‏کا ہونا ضروری ہے اور ہفتے کے ساتوں دن صرف ایک ماشکی یا ایک سنتری کو نہیں پابند کیا جاسکتا بہتر ہوگا کہ سات سنتری اور سات ہی ماشکی ملازم رکھے جائیں تاکہ باری باری کیساتھ بلا تعطل یہ کام چلتا رہے ایک اور اہلکار نے رائے دی کہ نہر سے گھڑا بھرا ہوا اٹھاکر لانا نہ تو ماشکی کا کام ہے‏اور نہ ہی سنتری کا اس محنت طلب کام کیلئے سات باربردار بھی رکھے جانے چاہئیں جو باری باری روزانہ بھرے ہوئے گھڑے کو احتیاط سے اٹھا کر لائیں اور اچھے طریقے سے ڈھکنا لگا کر بند کرکے رکھیں ۔

ایک اور دور اندیش مصائب نےمشورہ دیا کہ اتنےلوگوں کو رکھ کر کام منظم طریقے سے چلانے کیلئے ان ‏اہلکاروں کا حساب اور تنخواہوں کا نظام چلانے کیلئے منشی محاسب رکھنے ضروری ہونگےاکاؤنٹنگ کا ادارہ بنانا ہوگا اکاؤنٹنٹ متعین کرنا ہونگے ایک اور زو فہم اہلکار نے مشورہ دیا کہ یہ اسی صورت میں یقینی بنایا جاسکتا ہے کہ ہر کام اچھےطریقے سے چل ریا ہےتو ان ماشکیوں سنتریوں اور باربرداروں ‏سے بہتر طریقے سے کام لینے کیلئے ایک ذاتی معاملات کا ایک شعبہ قائم کرنا پڑے گا، ایک اور مشورہ آیا کہ یہ سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے مگر ملازمین کے درمیان لڑائی جھگڑا یا کوئی زیادتی ہوجاتی ہے تو ان کا تصفیہ اور صلح صفائی کون کرائےگا؟ کہ کام بلا تعطل چلا رہے اس لیئے خلاف ورزی اور اختلاف ‏کرنے والوں کی تفتیش کیلئے قانونی امور کا محکمہ قائم کیا جانا چاہیے۔

ان سارے محکموں کی انشاء کے بعد ایک صاحب کا یہ مشورہ آیا کہ اس سارے انتظام پر کوئی ہیڈ بھی مقرر ہونا چاہیے، ایک ڈائریکٹر بھی تعینات کردیا گیا۔ سال بعد بادشاہ کا اپنی رعایا کے دورے کے دوران اس مقام سے گزر ہوا تو‏اس نے دیکھا کہ نہر کنارے ایک عظیم الشان عمارت کا وجود آچکا ہے جس پر لگی روشنیاں دور سے نظر آتی ہیں، عمارت کا دبدبہ آنکھون کو خیرہ کرتاہے عمارت کی پیشانی پر نمایاں انداز میں”وزارت انتظامی امور برائے گھڑا“کا بورڈ لگا ہوا ہے بادشاہ اپنےمصاحبین کیساتھ اندر داخل ہوا تو ایک الگ ہی‏جہان پایا، عمارت میں کئی کمرے میٹنگ روم اور دفاتر تھے ایک بڑے سے دفتر میں آرام دہ کرسی پر ایک پروقار معزز شخص بیٹھا تھا جس کے سامنے تختی پر اس کے القابات” ڈائریکٹر جنرل برائے معاملات سرکاری گھڑا“لکھا ہوا تھا، بادشاہ نے ‏حیرت کیساتھ اپنے وزیر سے اس عمارت کا سبب اور اس عجیب و غریب محکمہ کے بارے میں پوچھا جس کا اس نے زندگی میں نام بھی نہیں سنا تھا۔ وزیر نے جواب دیا حضور یہ سب آپ ہی کے حکم پر ہوا ہے آپ نے پچھلے سال عوام الناس کی فلاح اور آسانی کیلئے یہاں ایک پانی کا گھڑا نصب کرنے کا حکم دیا تھا۔

‏بادشاہ حیرت کیساتھ باہر نکل کر اس گھڑے کو دیکھنے گیا جس کو لگانے کا اس نے حکم دیا تھا بادشاہ نے دیکھا کہ گھڑا خالی اور ٹوٹا ہوا ہےاور سامنے ایک بورڈ لگا ہے”گھڑے کی مرمت اور بحالی کیلئے اپنے عطیات جمع کرائیں“
منجانب:
”وزارت انتظامی امور برائے گھڑا“

‏یہ تھی پاکستان کو برباد کرنے کی وہ کہانی جس پر عوام نے آنکھیں بند کیئے رکھیں ہیں۔
پاکستان دو لخت ہوکر ٹوٹ گیا لیکن ہماری مجرمانہ خاموشی نا اس وقت ٹوٹی نا آج
واپس کریں