دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہندو برتری کی جنگ :بلڈوزر نیا ہتھیار
No image پہیوں پر نصب، بلڈوزر بڑی بد صورت مشین ہوتی ہے جو کنکریٹ کے مضبوط ڈھانچوں کو آسانی سے گرانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔یہ واقعات کا ایک گھناؤنا موڑ ہے جب بھارت میں بلڈوزر کا استعمال ملک کے مذہبی ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہمی کے دیرینہ نظریات کو منہدم کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
ایک ایسی ریاستی طاقت کی حمایت سے جو واضح طور پر اقلیتی مسلم کمیونٹی کے خلاف انتقامی کارروائی کر رہی ہے اور جہاں بے حس حکام انتہائی بے دردی سے ، املاک کو مسمار کرنے کے لیے ملک کے کئی حصوں میں بلڈوزرکا استعمال کر کے ہندوستان کے سماجی تانے بانے کی مضبوط عمارت کے تاروپود بکھیر رہے ہیں۔
انہدام کا یہ نمونہ، جسے کہ حال ہی میں ریاست مدھیہ پردیش اور پھر اس ہفتے دارالحکومت دہلی میں دیکھا گیا، ایک شیطانی لیکن مکمل طور پر بےباکی پر مبنی ہے۔سب سے پہلے، 1.4 کھرب کی آبادی والے ملک میں اپنے مذہب کے تسلط کے خواہاں اور نظریاتی طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ جڑے ہوئے ہندو کارکنوں کے گروہ، بڑی تعداد میں ہندو مذہبی تہوار منانے کے لیے ،سڑکوں پر نکلے۔ .
کھرگون، مدھیہ پردیش میں، وہ ہندو دیوتا بھگوان رام کے جنم دن رام نوامی کے موقع پر نکلے تھے۔ دہلی کے جہانگیرپوری میں، موقع ہنومان جینتی ، یعنی ہنومان کی سالگرہ تھی، جس کی پوجاپورے ہندوستان میں کی جاتی ہے۔لیکن جلوس میں شامل ہونے کے بعد، نیک مقاصد جلد ہی ختم ہو جاتے ہیں اور وہ مقامی مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے اشتعال انگیزی پر اتر آتے ہیں۔۔ ایسا کرنے کے لیے، وہ عوامی طور پر تلواروں، چاقوؤں، اور بعض صورتوں میں، پستولوں کی نمائش کرتے ہیں ، اور آگ بھڑکانے والے نعرے لگاتے ہیں۔
جذبات کو بھڑکانے کے مقصد سے پیدا ہونے والا شور شرابہ اس وقت ثمر آور ہوتا ہے جب جذباتی مسلمانوں کا ردعمل سامنے آتا ہے۔ بعض مقامات پر انہوں نے جلوسوں پر پتھراؤ کیا اور ہنگامہ آرائی کی۔ طے شدہ منصوبے کے مطابق پولیس آتی ہے، اور اقتدار میں دائیں بازو کے سیاستدان اپنی طاقت ثابت کرنے کے لیے سخت کارروائی کا وعدہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد بلڈوزر تعینات کئے جاتے ہیں جو دکانوں اور گھروں کو نشانہ بناتے ہیں، خاص طور پر مسلمانوں کے۔
اقتدار میں رہنے والوں کا کہنا ہے کہ نیت خالص ہے اور اس کا مقصد صرف امن و امان کا تحفظ ہے۔دہلی میں انہدام کی مہم کے چند گھنٹے بعد، بی جے پی کے قومی نائب صدر، بائی جیانت "جے” پانڈا نے ان لوگوں کو، جنھیں نشانہ بنایا جاتا ہے کو غیر قانونی تارکین کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ "ہندوستان انہیں اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ نو گو ایریاز بنائے جیسا کہ بہت سے مغربی ممالک میں ہے۔”
پولیس عوامی اراضی پر غیر قانونی تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے انہدام کو مکمل طور پر قانونی عمل کے طور پر بھی پیش کرتی ہے۔لیکن بلڈوزر کو جس عجلت اور جلدی میں استعمال کیاجاتا ہے، وہ حد درجے کی دھوکہ بازی پر مبنی طریقہ ہے ۔ قوانین کے ذریعے طے شدہ طریقہ کار پر عمل نہیں کیا جاتا اور جائیدادوں کو ان کے مالکان کو پیشگی اطلاع دیے بغیر ہی گرایا جا رہا ہے۔ یہ ان سے ان کی جائیدادوں کی قانونی حیثیت ،اگر ہے تو ،اسےثابت کرنے کا موقع چھین لیتا ہے۔
وہ معاش اور رہائش سے حقارت آمیز طریقے سے محروم کر دیے جاتےہیں۔لیکن پھر، انہداموں کے پیچھے اصل خیال یہ ہے کہ اقتدار میں رہنے والوں کی طاقت کو سامنے لایا جائے اور نام نہاد فسادیوں کو "سزا” دی جائے۔اس سے بی جے پی کو اس کی بنیادی ہندو بنیاد کو مطمئن کرنے میں مدد ملتی ہے ،جب سزا پانے والے بھاری تعداد میں مسلمان ثابت ہوتے ہوں۔مسلمان، جو ہندوستان کی آبادی کا تقریباً 14 فیصد ہیں اور ان کی تعداد تقریباً 200 ملین ہے، نشانہ بننے والے ہوتے ہیں۔ ماضی میں مسلم مخالف تشدد اور امتیازی سلوک کے واقعات ہوتے رہے ہیں، لیکن 2014 میں پہلی بار مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
وزیر اعظم اور ان کی پارٹی ہندوتوا یا ہندو قوم پرستی کے مقصد کے لیے ڈھٹائی سے اپنا کھیل کھیلتے ہیں، یعنی مسلمان خود کو تیزی سے گھر ہوا پاتے ہیں۔کئی مسلمان تاجروں کو ہندو محافظوں نے یا تو مویشیوں کی تجارت یا گائے کا گوشت رکھنے کے شبہ میں مار مار کر ہلاک کر دیا ہے۔ان ریاستوں میں، جہاں بی جے پی برسراقتدار ہے، مویشیوں کی تجارت پر پابندی کے قوانین لائے گئےہیں کیونکہ ہندو، جو ہندوستانی آبادی کا 80 فیصد ہیں، گائے کی پوجا کرتے ہیں۔
اگرچہ ایک بہت بڑے فرق سے اکثریت میں ہونے کے باوجود، ہندو کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے مذہب، رسوم و رواج اور عقائد خطرے میں ہیں۔ اس لیے کئی ریاستوں نے بین المذاہب شادیوں کی حوصلہ شکنی کرنے والے قوانین بنائے ہیں – خاص طور پر مسلمان مرد ہندو عورتوں کو بیوی نہیں بنا سکتے۔حالیہ مہینوں میں، ہندوستان کے جنوب میں کرناٹک کے ساتھ میں یہ بنیاد پرست حملہ مزید وسیع ہو گیا جس میں خواتین طالبعلموں پر حجاب یعنی مسلم ہیڈ اسکارف پہننے پر پابندی لگا دی گئی۔ اب حلال کے خلاف جو کہ اسلامی روایات کے تحت کھانے پینے کی اشیاء کی تصدیق کے عمل ہے، اورمسلمان آم بیچنے والوں کے خلاف مہم چل رہی ہے۔
بلڈوزر کا مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنانا اس بیانیے میں فٹ بیٹھتا ہے جس کا پرچار حکمران بی جے پی کرنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن کانگریس پارٹی کے راہول گاندھی سمیت بہت سے لوگ اسے دل شکن اور نفرت انگیز سمجھتے ہیں۔گاندھی نے حال ہی میں کہا کہ ’’یہ نفرت اور دہشت ہے جو بی جے پی کے بلڈوزر پر سوار ہے۔یہ واقعی خوفناک تھا جب کھرگون میں اپنے بیٹے کے ساتھ رہنے والی ایک بیوہ حسینہ فخرو کے گھر کو بلڈوزر گرانے آئے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جس گھر میں وہ رہتی تھیں وہ پردھان منتری آواس یوجنا کی مالی مدد سے بنایا گیا تھا – جو وزیر اعظم کے نام پر چلایا جانے والا فلیگ شپ سرکاری فنڈ ہے۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ گھر سرکاری امداد سے بنایا گیا تھا، فخرو کا خیال تھا کہ اسے تمام قانونی منظوری حاصل تھی۔ اس کے باوجود اس کا گھر مسمار کر دیا گیا اور فخرو کو ویران چھوڑ دیا گیا۔ایک سابق پینٹر وسیم شیخ بھی اتنے ہی پریشان تھے جو برسوں پہلے ایک حادثے میں اپنے دونوں ہاتھ کھو بیٹھے تھے۔ کھرگون کے پتھربازوں کو سزا دینے کے لیے بلڈوزر آئے تو ان کی دکان کو نشانہ بنایا گیا۔ کہ اس کے پاس پتھر پھینکنے کے لیے ہاتھ نہیں تھے وہ اہلکاروں کو روکنے میں ناکام رہے۔
یہ یوگی آدتیہ ناتھ ہی تھے، جو گیروے رنگ پوش راہب اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ تھے، جنہوں نے سب سے پہلے بلڈوزر کی نام نہاد خوبیوں کی تشہیر کی۔بشمول ان کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کے،سیاسی مخالفین کے خلاف سخت گیر طریقے استعمال کرنے کے لیےمشہور آدتیہ ناتھ نے حال ہی میں مکمل ہونے والے ریاستی انتخابات سے قبل ووٹروں کو بتایا کہ بڑے پیمانے پر بلڈوزر استعمال کرنے کے اپنے منصوبوں کے بارے انہیں زبردست کامیابی حاصل ہوئی ہے۔اس جنونی شخص کو اب بلڈوزر بابا کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
انتخابات میں ان کی جیت نے ظاہر کیا کہ ووٹروں نے، جن میں زیادہ تر ہندو ہیں، ان کی طاقت کے استعمال کی حکمت عملی کو تسلیم کر لیا، اور دیگر ریاستوں کے بی جے پی لیڈران اب ان کی نقل کرنے کا مقابلہ کر رہے ہیں۔دریں اثنا، مدھیہ پردیش کے ایک وزیر نے بڑے فخر سے بلڈوزر کے ساتھ تصویریں کھنچوائی ہیں۔ریاست کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کو مقامی طور پر ماما (چاچا) کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے، اسے اب ان کے پیروکار پیار سے "بلڈوزر ماما” کہنے لگے ہیں۔حکمراں بی جے پی کے فوری طور پر بہت کچھ حاصل کرنے کے لیے ان اقدامات کے بعد، ہندوستانی مسلمانوں پر جلد ہی کسی قسم کے رحم کا امکان نہیں ہے۔
شفقنا اردو
واپس کریں