دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ضلع تلہ گنگ
No image لاہور سے اسلام آباد جانے والی موٹروے کے ذریعے سے بلکسر انٹر چینج سے اُتریں تو بائیں جانب سڑک تلہ گنگ کو جاتی ہے۔ چکوال شہر سے میاں والی جانے والی سڑک پر 45 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ایک اور بات یہاں واضع کرتا چلوں کے پچھلی حکومت اس علاقے کو ضلع کا درجہ دے چکی ہے لیکن انتظامی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔ بحر حال۔
جہاں تک اس کے نام کا تعلق ہے تو یہاں ایک بہت بڑا تالاب تھا۔ اس کا پانی کھاری تھا۔ جبکہ اس کے ساتھ ایک کنواں تھا جس کا نام گنگا جل مشہور تھا۔ اس کنویں کا پانی میٹھا تھا۔ تالاب اور گنگاجل کے ناموں کو ملا کر اس کا نام تلہ گنگ مشہور ہوا۔ دوسری روایات جو یہاں بہت سے لوگ بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کے ایک ہندو قبیلہ تھا جسے گنگ قبیلہ کہتے تھے اور تلہ ناہموار جگہ کو یا نشیب و فراز والی جگہ کو کہتے ہیں اس لیے اس کا نام تلہ گنگ پڑا۔ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو لیکن اس علاقے کو اعوان قوم نے آباد کیا ہے جو تاریخ سے واضع ہے۔باقی اللہ جانتا ہے

تلہ گنگ کا خوبصورت شہر پہلے ضلع اٹک کی تحصیل تھی لیکن جب 1985ء میں چکوال کو ضلع بنایا گیا تو تلہ گنگ کو اس میں شامل کردیا گیا۔اِس علاقے کی تہذیب بڑی قدیم ہے۔ سُون سکیسر کے پہاڑ اس کے قریب ہیں۔ ہندوئوں کی روایت ہے کہ جب پانڈو راجے جلاوطن ہوئے تو وہ ایک مدت تک اِسی پہاڑ میں رہے تھے۔ اِس پہاڑی علاقہ کی سطح سمندر سے بلندی تقریباً 2 ہزار فٹ سے زیادہ ہے۔ مسٹر برنیڈرتھ اس علاقے کو شمالی ہند کے خوبصورت ترین علاقوں میں سے ایک قرار دیتا ہے۔ یہ علاقہ کافی حد تک ہموار ہے اور اسے ہر طرف پہاڑیوں نے اس طرح اپنی گود میں لے رکھا ہے کہ یہاں زمین کے کٹائو کا کچھ زیادہ خطرہ نہیں ہے۔ تلہ گنگ کا سارا پانی دو بڑے نالوں کے ذریعے خارج ہوتا ہے اور ان دونوں نالوں کا نام گبیھر ہے۔ مشرقی گبیھر اس علاقہ دھنی کے درمیان حد فاصل کا کام دیتا ہے۔ مغربی گبیھر اس کی مغربی سرحد ہے۔ دونوں کا منبع کوہستان نمک میں واقع جابہ ہے۔ دونوں دریائے سواں میں جا گرتی ہیں۔ ماضی قدیم میں ایک شاہراہ کبیر تلہ گنگ مویشی ہسپتال کے قریب سے نشیب میں اُتر جاتی تھی اور کلّو کے مقام پر جا کر میدانی علاقہ میں اُبھرتی تھی اور پھر کلرکہار کے سنگم پر شاہراہ بھیرہ‘‘ سے مل جاتی تھی۔ تلہ گنگ کو اعوان قبیلے نے آباد کیا تھا۔ جو سلطان محمود غزنوی کے دَور میں برصغیر میں آئے تھے۔ ان کے سالار قطب حیدر شاہ نے دریائے سندھ عبور کر کے سُون سکیسر کے راجہ کو شکست دی۔ انھوں نے زندگی کا بیشتر حصہ انگہ میں گزارا۔ کچھ عرصہ کالا باغ کے نواح دھنکوٹ میں بھی قیام کیا۔ آخری ایام میں اپنے دو بیٹوں کے ہمراہ آبائی وطن غزنی پلٹنے سے پہلے انہوں نے اپنے زیر دسترس علاقے اپنے باقی نو بیٹوں میں تقسیم کر دئیے تھے۔ ان کے بیٹے مزمل علی کلگان کے حصے میں قلعہ دین کوٹ یادھنکوٹ، چکٹرالہ، سکیسر، نمل، کالاباغ اور تلہ گنگ آئے۔ انگریز دور حکومت میں اسے ضلع راولپنڈی میں شامل کیا گیا تھا۔ انگریزوں نے ابتداء میں یہاں فوجی چھاٶنی بھی قائم کی تھی مگر 1882ء میں اسے ختم کر دیا گیا۔

1904ء میں اٹک ضلع بنا تو اس کی تحصیل بنایا گیا اور یہاں تحصیل کچہری، تھانہ، ڈسپنری، سکول اور بنگلہ تعمیر ہوئے۔
1911ء میں اسے نوٹیفائیڈ ایریا قرار دیاگیا اور 1924ء میں سمال ٹائون کمیٹی بنا دیا گیا۔ 1931ء میں اس کی آبادی 1746 افراد پر مشتمل تھی۔
جبکہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق اس شہر کی آبادی 8 لاکھ کے قریب تھی جس میں 5 لاکھ شہری آبادی اور تین لاکھ دیہی آبادی شامل ہے
آجکل یہ ضلع چکوال کی ایک تحصیل کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ تحصیل 25 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔

یہاں تحصیل سطح کے دفاتر، تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال جس کا ایک حصہ شہر کے مرکز میں اور دوسرا بنگلہ نورشاہ میں ہے اس کے علاوہ طلباوطالبات کے ڈگری کالجز، ہائی اور مڈل سکول کامرس کالج، فوجی فائونڈیشن ماڈل سکول اینڈ کالج بھی ہیں۔ اور غلہ منڈی یہاں کے اہم تجارتی مراکز ہیں۔ یہاں کا بوائزڈگری کالج 1959ء میں قائم ہوا تھا۔ علاقے میں مونگ پھلی کی کاشت کثرت میں ہوتی ہے جبکہ تلہ گنگ کی منڈی میں اس کی تجارت عام ہے۔ یہاں کے بنے ہوئے کُھسّے اور چپلیں بہت مشہور ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل تک تلہ گنگ میں لکڑی اور گُڑکی تجارت عام ہوتی تھی۔ یہاں سرحد اور پنجاب سے آنے والا گُڑ نیلام ہوا کرتا تھا۔
یہ ایک تاریخی شہر بھی سسی دا کالرہ بھی یہاں موجود ہے جس کی پوسٹ پہلے ہو چکی ہے اور بھی بہت سے تاریخی مقام ہیں اور قدرتی مناظر سے مالا مال یہ علاقہ انتہاٸی دلکش اور خوبصورت ہے
واپس کریں