دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نئے ورلڈ آرڈر کی جانب| تحریر نوید امان خان
No image محنت تو امریکہ نے کی لیکن پھل چین کے جھولے میں لپٹا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ کی نیت غلط تھی لیکن چین اس معاملے میں کم از کم مخلص ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات کا آغاز عراقی حکومت نے امریکہ کی ایما پر کیا تھا اور اس کے کئی دور ہوئے لیکن بیجنگ میں اچانک ایک خوبصورت اور خوشگوار تبدیلی رونما ہوئی۔ 6 مارچ 2023 کو، سعودی عرب اور ایران کے اہم حکام نے بیجنگ میں چین کی ثالثی میں سفارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ سابقہ معاہدوں کی بحالی پر اتفاق کیا۔ یہی نہیں یمن میں 2022 کے امن معاہدے کو آگے بڑھایا جائے گا۔ ایران حوثی باغیوں کو سعودی عرب میں میزائل حملے بھیجنے یا شروع کرنے سے روکے گا۔ جی سی سی ممالک کے ساتھ ایران کی تجارت میں اضافہ کیا جائے گا جبکہ علاقائی سلامتی کا فریم ورک بنانے کے لیے مذاکرات شروع ہوں گے اور اس عمل کی نگرانی اور ثالثی چین کرے گا۔

ہمارے پاکستانی سیاستدانوں کے پاس الیکشن اور سپریم کورٹ کھیلنے کے لیے کافی وقت ہے جبکہ میڈیا ان سے چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان چین کی ثالثی میں ہونے والا معاہدہ خطے اور دنیا کے لیے کسی بڑے انقلاب سے کم نہیں۔ ہم اسے نیا علاقائی گیم آرڈر کا نام دے سکتے ہیں۔ اس سے پاکستان، افغانستان، یمن، شام، عراق، لبنان، بحرین اور کسی حد تک متحدہ عرب امارات اور عمان جیسے ممالک بھی متاثر ہوں گے۔ کسی پر کم اور کسی پر زیادہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ تمام ممالک میں ایران اور سعودی عرب کی پراکسی وار جاری تھی۔ جب ان دونوں ممالک میں صلح ہو جائے گی تو ان ممالک میں بھی یہ جنگیں آہستہ آہستہ خود بخود ختم ہو جائیں گی۔ دو ملکوں کے درمیان پراکسی وار کی وجہ سے پاکستان فرقہ واریت اور دہشت گردی کا شکار تھا۔ سفارتی اور تجارتی لحاظ سے پاکستان ہمیشہ کنفیوژن کا شکار رہا۔ اگر پاکستان کسی بھی حوالے سے ایران کے قریب ہو گیا تو سعودی عرب ناراض ہو جائے گا اور سعودی عرب سے قربتیں بڑھا دے گا۔

ایران ہمسایہ ملک ہے اور پاکستان میں بڑی تعداد میں شیعہ آباد ہیں جو ایران کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب اللہ اور اس کے رسول کا گھر ہونے کے ناطے ہر پاکستانی کی عقیدت کا مرکز ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ زرمبادلہ سعودی عرب سے آتا ہے جبکہ ہر مشکل وقت میں پاکستان کی سب سے زیادہ مدد کرنے والا ملک بھی سعودی عرب ہے۔ اس طرح اگر یہ دونوں ممالک صلح کر لیتے ہیں تو پاکستان اس الجھن سے نکل جائے گا۔ اسی طرح یہ دونوں ممالک ایک طویل عرصے سے افغانستان میں پراکسی وار لڑ رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ افغانستان کی صورتحال سے پاکستان براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔ اسی طرح شام، لبنان اور یمن میں اگر کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کے ہاتھوں مارا جاتا ہے تو اس کا ایک اہم عنصر ایران اور سعودی عرب کی پراکسی وار ہے۔ عراق میں شاید امریکی قبضے کے دوران اتنے عراقی نہیں مارے گئے جتنے شام، لبنان، یمن اور افغانستان میں مرے تھے۔ فرقہ وارانہ جنگوں میں مسلمانوں کی موت ہوئی اور ظاہر ہے کہ ایک اہم وجہ یہ تھی کہ ایران اور سعودی عرب دونوں عراق میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتے تھے۔ اب عرب ممالک بھی امن کی طرف بڑھیں گے اور فقہی بنیادوں پر یا ایران نواز اور سعودی عرب نوازی کی بنیاد پر آپس میں لڑنے کے بجائے تجارت اور ترقی کے میدان میں تعاون کی راہ ہموار ہوگی۔

دوسرا اہم نتیجہ یہ ہو گا کہ امریکہ کی ایران اور سعودی عرب کو بلیک میل کرنے کی صلاحیت مزید کم ہو جائے گی کیونکہ ایران میں خوف پیدا کر کے امریکہ اپنے ہتھیار عرب ممالک کو فروخت کر کے ان کے تیل کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کر لے گا۔ دوسری طرف ایران امریکہ سے اتنا خوفزدہ نہیں تھا جتنا کہ عرب ممالک، اس لیے اسے امریکا کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے اپنے زیادہ تر وسائل مسلم ممالک میں اپنی پراکسیز کو مسلح کرنے اور دوسرے طریقوں سے مدد فراہم کرنے کے لیے استعمال کیے گئے۔ اب ہاتھ ملانے کے بعد سعودی عرب اور ایران اپنی قوموں کی ترقی پر پیسہ خرچ کریں گے۔ عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے عمل نے ایران کے اس خدشے کو مزید بڑھا دیا کہ یہ اتحاد اس کے خلاف ہو رہا ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات میں بہتری کا عمل جاری رہے گا لیکن اب یہ ایران کے خلاف نہیں بلکہ باہمی بقا اور تجارت پر مبنی ہو گا۔ جو مثبت پیش رفت ہوئی ہے اس کا سہرا پاکستان کی قیادت کو جاتا ہے۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان اور ایرانی قیادت ابراہیم رئیسی اور بلاشبہ علی خامنہ ای کو زمین پر نئی حقیقتوں کو پہچاننے اور سمجھنے اور یہ سمجھنے کے لیے کہ باہمی دشمنی سے دونوں فریقوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔

یہ ہو رہا ہے لیکن اس سلسلے میں چینی قیادت کی بصیرت کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جو کچھ ہوا اس سے لگتا ہے کہ چین اس معاملے میں کافی عرصے سے خاموشی سے سرگرم ہے۔ اصل کام چینی صدر کے دورہ سعودی عرب اور پھر ایرانی صدر کے دورہ چین کے دوران ہوا اور پھر پردے کے پیچھے خفیہ سفارتکاری کے ذریعے۔ سعودی عرب، ایران اور عرب ممالک سے زیادہ یہ چین کی کامیابی ہے۔ اس کے ذریعے چین نے امریکہ کو واضح پیغام دیا کہ اگر دنیا نہیں تو کم از کم اس خطے کی حکمرانی امریکہ کے پاس نہیں بلکہ چین کے پاس ہو گی۔ چین اب سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ ساتھ ایران میں بھی تیزی سے سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب نے امریکہ کو آنکھیں دکھاتے ہوئے چین کی ثالثی کے ذریعے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرنا شروع کر دیا ہے اور امریکہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر اس نے مزید سختی کی تو ایک نیا آپشن، چین جواب میں منتخب کیا جائے گا۔
واپس کریں