دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
27 اپریل ۔کالم نگار،راؤ محمد نعمان
No image 27 اپریل کو دنیا کی تاریخ کے بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے۔
جیسے مغربی افریقہ کے دو ممالک ٹوگو نے فرانس سے 27 اپریل 1960 کو آزادی حاصل کی جبکہ سیرالیون نے 27 اپریل 1961 کو برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔
1994 میں 27 اپریل کو جنوبی افریقہ کے بائیسویں(22nd) عام انتخابات ہوئے جن کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں پہلی بار سیاہ فام اکثریت کو ووٹ ڈالنے اور الیکشن میں حصہ لینے کا حق ملا۔ ان انتخابات میں نیلسن منڈیلا کی سربراہی میں افریقن نیشنل کانگریس نے چار سو(400) میں سے دو سو باون(252) نشستیں حاصل کی جس کے نتیجے میں نیلسن منڈیلا ملک کے صدر بنے۔ 1994کے بعد ہونے والے تمام پانچ انتخابات میں افریقن نیشنل کانگریس نے ہی فتح حاصل کی۔ 1994 کے انتخابات کی خوشی یا یاد میں جنوبی افریقہ میں ہر سال 27 اپریل کو یوم آزادی منایا جاتا ہے۔
پاکستان کے حوالہ سے دیکھیں تو 27 اپریل 1962 شیر بنگال ابو القاسم فضل الحق کا یوم وفات ہے۔ جنہوں نے 23 مارچ 1940 کو قرارداد لاہور پیش کی جو اب قرارداد پاکستان کہلاتی ہے۔ آپ بنگال کے وزیر اعلیٰ اور بعد میں مشرقی پاکستان کے گورنر اور وفاقی وزیر داخلہ بھی رہے۔
27 اپریل 1593 ملکہ ہندوستان ممتاز محل(ارجمند بانو بیگم) کا یوم پیدائش ہے۔ جن کے شوہر شاہ جہاں(مرزا شہاب الدین بیگ محمد خان خرم) نے ان کی محبّت میں تاج محل تعمیر کروایا۔ تاج محل اب دنیا کے عجائبات میں شامل ہے اور محبت کی یادگار کے طور پر مشہور ہے۔
محبت، غیرت اور بہادری کے حوالہ سے 27 اپریل ہی کے دن دو اہم واقعات ہوئے۔
پہلا اہم واقعہ 711 میں ہوا۔ جب ہسپانیہ کے ظالم بادشاہ وزیگوتھ کے خلاف کامیاب جنگی مہم کا آغاز جبل الطارق کے مقام سے ہوا جس کا موجودہ نام جبرالٹر ہے اور اب یہ برطانیہ کے قبضہ میں ہے۔ یہاں پر ایک بڑا پہاڑ ہے اور پہاڑ کو عربی میں جبل کہتے ہیں۔ یہ پہاڑ مشہور مسلمان جرنیل طارق بن زیاد کے نام پر جبل الطارق کہلایا جنہوں نے 711 میں اندلس میں فتوحات حاصل کرنے کے بعد یہاں مسلم اقتدار کی بنیاد رکھی تھی۔ 27 اپریل 711 کو ہی طارق بن زیاد نے جبل الطارق کے مقام پر کشتیاں جلا کر جس معرکہ کا آغاز کیا اور تین ماہ کے اندر ہی سات ہزار کی مختصر فوج سے ایک لاکھ کے لشکر کو شکست دے کر اندلس فتح کیا۔
دوسری اہم ترین 27 اپریل 1936 میں آئی جب بھوپال میں علم کی تقسیم پر مامور محترم عبدالغفور خان صاحب اور ان کی انتہائی نیک اور پاکیزہ اہلیہ محترمہ زلیخا بیگم بھوپالی صاحبہ کے ہاں ان کے ایک بیٹے آنکھ کھولی۔ جس کا نام خاندان کے دیگر بچوں کی طرح کلام مجید سے رہنمائی لے عبدالقدیر خان رکھا گیا۔ قدیر یعنی قدرت والا جو ﷲ کی ذات پاک ہے اور عبدالقدیر یعنی قدرت والے کا بندہ۔ جبکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کیلئے کہا جائے تو ہر کام میں قدرت رکھنے والے کا خاص بندہ۔
زندگی کے ابتدائی سولہ سال بھوپال میں گزارنے اور میٹرک پاس کرنے کے بعد انہوں اپنے دوستوں کے ساتھ بذریعہ ٹرین پاکستان کے شہر لاہور کیلئے سفر شروع کیا جبکہ ان کے خاندان کے اکثر افراد پہلے ہی پاکستان کے شہر کراچی منتقل ہو چکے تھے۔ دوران سفر ان کے تین ساتھی ہندو اور سکھ دہشت گردوں نے شہید کر دئیے جبکہ دو کو اغوا کر لیا گیا۔ کیونکہ ٹرین اور لاہور کا سفر نا ممکن بنا دیا گیا تھا مگر ہر شے پر قدرت رکھنے والے نے ان سے اہم کام لینے تھے اس لیے محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے پندرہ دن کا انتہائی تکلیف دہ سفر طے کر کے کھوکھرا پار کی سرحد سے پیدل پاکستان میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ پاکستان داخلے سے قبل موناباؤ میں بھارتی فوجی سے ہونے والا مکالمہ جس میں اس فوجی نے توہین آمیز رویہ اختیار کیا اور شاید اسی کے جواب میں محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے پاکستان جوہری و میزائیل قوت بنا دیا۔
محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کی کامیابیوں اور ان سے کی گئی احسان فرموشی و محسن کُشی کی داستان تو بہت طویل ہے مگر یہ سوچ کر ہی میری روح کانپ جاتی ہے کہ صرف ایک فوجی کی توہین آمیز گفتگو پر بھارت کو اتنا بڑا جواب اور جو ریاستِ پاکستان محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب سے گزشتہ دو دہائیوں سے کر رہی ہے اگر روز قیامت محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے ہماری شکایت لگا دی تو ہمارا کیا بنے گا۔ کیا اس روز وہ دو تین وطن فروش غدار ہماری کچھ مدد کر سکیں گے جن کی جاگیریں اور جھوٹی عزتیں بچانے کیلئے ہم نے محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے ﷲ کی طرف سے بھیجے گئے فرشتے کو اتنی اذیتیں پہنچائی۔ وہ بے ایمان ہماری کیا مدد کریں گے وہ تو ان شاءﷲ اپنے غیر ملکی آقاؤں کے ساتھ جہنم کا ایندھن بن رہے ہوں گے۔ اگر کوئی یہ سوچے کہ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو روز قیامت ہماری شکایت لگانے کا موقع نہیں ملے گا تو ان کیلئے حضرت علامہ مولانا حافظ خادم حسین رضوی صاحب کا وفات بلکہ جس مشن کے ساتھ وہ دنیا سے گئے ان کی شہادت سے چند روز قبل کا محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب سے ہی متعلق بیان جس میں انہوں نے ایک حدیث پاک کا حوالہ دیا جو آپ کو بھی یاد کرا دوں کہ رسول الله صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ”ﷲ تعالیٰ ایک تیر کے ذریعہ تین طرح کے لوگوں کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔ اسلام کیلئے تیر بنانے والا جس نے اچھی نیت سے اسلام کا تیر تیار کیا ہو، تیر اٹھا کر پکڑانے\چلانے کے لیے دینے والا اور تیر کا چلانے والا تینوں ہی جنت میں جائیں گے“ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ تیر بنانے والا جنتی تو جس نے میزائیل اور ایٹم بم بنایا وہ؟
یقینی طور پر اس شخص کا جنت میں خاص رتبہ ہو گا اور اس شخص کی بات بھی ضرور سنی جائے گی اور اگر ہماری آج کی خاموشی تب پوچھ لی گئی تو کیا جواب ہو گا؟
میں آپ سب کو اس جواب کی تیاری کا موقع فراہم کر رہا ہوں کہ اب سے ہی سوچ لیں کہ تب کیا جواب دینا ہے۔
ہمیں قومی ترانے کا تو اتنا احترام سکھایا گیا ہے کہ اسے سنتے ہی کھڑے ہو جاؤ۔ ہم قومی ترانے کے احترام میں کھڑے رہے اور صاحب اختیار و اقتدار قومی خزانے کو لوٹتے رہے یہاں تک کے انہوں نے اپنی لوٹ مار اور وطن فروشی بچانے کیلئے اتنا جھوٹ گھڑا کہ محسنِ پاکستان کو مجرم بنا دیا۔ کہنے کا مقصد کہ جو قومی ترانے کے ادب میں کھڑا نا ہو وہ مجرم اور محسنِ پاکستان سے کی گئی بدمعاشیوں پر کھڑا نا ہو وہ؟
میں اس احسان فراموشی اور محسن کُشی پر خاموشی کا کوئی جواب و جواز تلاش کرنے میں ناکام رہا ہوں۔ اس لیے میں آج ہی محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب سے صِدقِ دِل سے سے معافی مانگتا ہوں
واپس کریں