دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
تحریک آزادی کشمیر کے قائد مفسر قرآن حضرت مولانا محمد یوسف شاہ مرحوم
No image تحریر: مولانا قاضی منظور الحسن۔میر واعظ حضرت محمد یوسف شاہ مرحوم کشمیر زبان میں عظیم مفسر قرآن، امام العصرحضرت مولانا انور شاہ کشمیری کے شاگرد رشید، ازیر ہند دارلعلوم دیو بند کے ممتاز فاضل رکن مجلس شوریٰ، تحریک تخفظ ختم نبوت کے عظیم رہبر اور تحریک آزاد کشمیر کے بانی رہنما تھے۔ تحریک آزادی کی خاطر انہوں نے اپنا سب کچھ سرینگر چھوڑ کر پاکستان / آزاد کشمیر کی طرف ہجرت کی، آزاد کشمیر میں پہلے وزیر تعلیم اور پھر دو مرتبہ صدر ریاست کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ آپکی تفسیر قرآن تحریری اور صوتی صورت میں اہل کشمیر کی رہنمائی کرتی رہی۔ آپکی تفسیر قرآن کو شیخ المشائخ حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی نور اللہ مرقدہ اور دیگر مشائخ کی تحریک پر رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کی طرف سے بھی شائع کیا گیا۔ 16 رمضان المبارک کو ریاست میں سرکاری سطح پر بھی آپ کی خدمات کے پیش نظر پروگرامات منعقد کئے جاتے ہیں۔ آپ نے امام العصر حضرت مولانا انور شاہ کشمیری کی ہدایت اور سرپرستی میں علماء کرام کو ایک پلیٹ فارم پر مجمع کرنے کے لئے آل جموں کشمیر جمیعت علماء اسلام کی تشکیل بھی کی تھی۔جس کے 1957 ء تک آپ بنفس نفیس امیر رہے۔

آپ کے بعد حضرت مولانا عبدالرحمان، حضرت مولانا مفتی عبدالحمید قاسمی، سیخ الحدیث حضرت مولانا یوسف خان مرحوم، مجاہد ملت حضرت مولانا امیری الزمان کشمیری، حضرت مولانا محمد طیب کشمیری، حضرت مولانا مفتی محمد ردیس خان ایوبی، حضرت مولانا سعید الرحمان تنویر، حضرت مولانا مفتی بشیر احمد کشمیری جیسے حضرات نے اس جماعت میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں ہیں۔ جبکہ 2018 ء سے مولانا قاضی محمود الحسن اشرف امیر، مولانا عبدالمالک صدیقی ایڈوکیٹ جنرل سیکرٹری، مولانا پروفیسر امین مشتاق سینئر نائب امیر کی تشکیل ہوئی۔ مولانا پروفیسر محمد امین 2021 ء میں انتقال کر گئے تھے جس کے بعد بطور نائب امیر مولانا پیر محمد مظہر سعیدشاہ خدمات سر انجام دے رہے مولانا پیر محمد مظہر شاہ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے رکن اور اسمبلی میں Jjujka کے پارلیمانی لیڈر اور وزیراعظم سردار تنویر الیاس کی حکومت کے اتحادی کی حیثیت سے وزیراعظم معائنہ و عملدرآمد کمیشن کے چیرمین ہیں۔۔ آل جموں و کشمیر جمیعت علماء اسلام کی قیادت کی طرف سے 16 رمضان المبارک بروز جمعہ المبارک بمطابق 07 اپریل 2023 کو ریاست بھر میں میر واعظ کشمیر حضرت مولانا یوسف شاہ کی یاد میں اور ایصال ثواب کے لئے پروگرامات منعقد ہونگے حکومت کی طرف سے سے بلدیہ ھال مظفرآباد میں جبکہ دینی جماعتوں کی طرف سیمرکز سواد اعظم جامعہ درالعلوم الاسلامیہ مظفرآباد میں دن 12 بجے مرکزی پروگرام زیر صدارت امیر ajkjui و صدر اتحاد تنظیمات ہو گا۔

میر واعظ حضرت مولانا محمد یوسف شاہ نے امام العصر حضرت مولانا محد انور شاہ کشمیری کی سرپرستی اور تشکیل پر آل جموں و کشمیر علماء اسلام کی تشکیل کی تھی جب امام العصر 1927 ء میں پشاور میں منعقدہ آل اندیا جمعیہ علماء ہند کے سالانہ اجلاس ک صدارت فرمانے کے بعد ایک ماہ تک اپنے آبائی وطن کشمیر میں مقیم رہے۔ جہاں انہوں نے ختم نبوت کے تخفظ اور ریاستی مسلمانوں کی دینی تعیلم و تربیت کے لئے علماء کرام اور اپنے متعلقین کو آل جموں و کشمیر جمیعہ علماء اسلام اور سیاسی امور اور تحریک آزادی کشمیر کے لئے آل جموں و آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی سرپرستی کے لئے خصوصی ہدایات دیں۔ ذیل میں مکمل تاریخ دارلعلوم دیوبند شائع کردہ میر محمد کتب خانہ مرکز علم و ادب آرام باغ کراچی میں جس پر مقدمہ حکیم الا سلام مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتہم دارالعلوم دیوبند تحریر کیا ہے اور تصنیف و تالیف سید محبوب الحق رضوی کی ہے میں درج تذکرہ میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ کشمیری صفحہ نمبر 118 کومن و عن پیش کیا جاتا ہے۔ آپ کے والد ماجد وادی کشمیر کے روحانی پیشوا تھے۔ ان کا خاندان کشمیر میں " میر واعظ خاندان" کہلاتا ہے اور بڑی عظمت و عقیدت کی نظر سے دیکھا جا تا ہے۔ میر واعظ کا لقب اسے خاندان میں کئی پشتوں سے چلا آ رہا ہے۔ مولانا یوسف شاہ صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد میر واعظ مولانا غلام رسول شاہ ثانی اور مولانا حسین وفائی سے حاصل کی پھر دارلعلو دیو بند میں چند سال رہ کر ۰۴۳۱ میں دارلعلوم دیو بند سے فارغ التحصیل ہوئے۔ فراغت کے بعد واپسی پر میر واعظ عتیق اللہ نے آپ کو اپنی جگہ میر واعظ مقرر کیا اور اس حیثیت میں آپ انجمن نصرت الاسلام سرینگر کے صدر بھی بنے۔

مولانا یوسف نے تعیلم سے فراغت کے بعد سرینگر میں ایک دینی درسگاہ اورنٹیل کالج کے نام سے قائم کی، اس کالج کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانان کشمیر، جو اب تک حکومت کی بے توجہی سے جہالت کے دلدل میں پھنسے ہوئے تھے، ان کی تعلیم کا انتظام کیا جائے اور اس درسگاہ کے ذریعے سے معلم، مدرس، مبلغ اور مساجد کی امامت و خطابت کے لئے لائق افراد تیار کئے جائیں۔ مولانا شاہ خود بھی اس کالج میں درس دیتے تھے، اس دینی درسگاہ نے دینی علوم ک خاصی خدمت انجام دی، مولانا موصوف درالعلوم دیو بند کے زمانہ طالب علمی میں تحریک خلافت سے بہت متاثر تھے، انہوں نے کشمیر میں اورنٹیل کالج کے علاوہ عام لوگوں میں سیاسی شعور بیدار کرنے کیلئے 1925 ء میں خلافت کمیٹی قائم کی تھی، ان کی یہی سیاسی جدوجہد آگے چل کر مسلم مجلس میں تبدیل ہو گئی، انہوں نے کشمیر کے پسماندہ مسلمانوں کی آواز کو موثر بنانے کے لئے الاسلام کے نام سے سہ روزہ پرچہ نکالا اور پھر دوسرا اخبار رہنما کے نام سے جاری کیا اور اخباروں کو چھاپنے کے لئے پریس لگایا۔ دیوبند سے کشمیر واپسی پر جب بعض مسلمان نوجوانوں نے ڈوگرہ راج کے خلاف مسلمانوں کے حقوق کے لئے جدوجہد شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو مولانا موصوف نے نہ صرف ان کی تائید و حمایت کی بلکہ ان کی سرپرستی کر کے ان کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی اس لحاظ سے آپ تحریک حریت کشمیر کے بانی بھی ہیں۔ آپ نے ہی 1931 ء کو خانقاہ معلی کے تاریخی جلسہ عام میں جن سات افراد کو ڈوگرہ حکمرانوں سے مسلمانوں کی شکایت اور مطالبات کے بارے میں بات چیت کرنے کے لئے منتخب کیا گیا، ان میں آپ سرفہرست تھے۔

اکتوبر 1932 ء کو جب مسلم کانفرنس کا قیام عمل میں آیا تو چودھری غلام عباس اور شیر کشمیر شیخ محمد عبدللہ کے ساتھ آپ بھی اس تنظیم کے بانیوں میں شامل تھے، 1933 ء میں آپ نے جموں کے دو لیڈروں سردار گوہر رحمان اور مسٹر اے آر ساغر کے تعاون سے آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس قائم کی گئی، آل جموں وکشمیر جمیعت علماء اسلام کا داہرہ کا ر دینی و اسلامی افکار و شعاہر کا تخفظ جبکہ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس سیاسی امور میں علماء کرام کی واحد نمایندہ تنظیم تھی اس لئے مسلم کانفرنس کی تھی آپ کی سرپرستی میں کام کرتی رہی، جون 1944 ء میں جب قائداعظم محمد علی جناح کشمیر تشریف لے گئے تو آپ نے ورگجن کے مقام پر ان کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا اور ان کے ا عزاز میں اپنی قیام گاہ میں دعوت دی جو کشمیر کی تاریخ میں ہمیشہ تاد رکھی جائے گی۔ جون 1945 ء کو آپ نے آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے تیرہویں اجلاس منعقدہ پونچھ کی صدارت کی اور اس میں آپ نے ایک فاضلانہ خطبہ صدارت پڑھا۔ ۸جون کو آپ ہی صدارت میں مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کی قرارداد آزاد کشمیر کا ابتدائی خاکہ مرتب کیا، جسے 27 جون 1946 ء کو باقاعدہ منظور کیا گیا، 24 اکتوبر 1946 ء چوہدری غلام رسول کی گرفتاری کے بعد آپ بحیثیت صدر مجلس عمل مسلمانوں کی قیادت کی اور 15 اگست 1947 ء کو آپ کی صدارت میں مسلم پرک سرینگر میں ایک لاکھ کشمیری مسلمانوں نے پاکستان کی حمایت کا اعلان کیااور مہاراجہ ہری سنگھ سے مطالبہ کیا وہ ریاست کا الحاق کشمیری مسلمانوں کی خواہشات کے مطابق پاکستان کے ساتھ کرے۔

پاکستان آ کر 1949 ء میں آپ حکومت آزاد کشمیر کے وزیر تعلیم مقر ر ہوئے پھر یکم دسمبر 1951 ء کو حکومت آزاد کشمیر کے صدر مقر ر ہوئے، اس کے بعد یکم جون 1956 ء کو دوبارہ صدارت کی ذمہ داریاں آپ کے کندھوں پر ڈالی گئیں، آپ کچھ عرصہ حکومت پاکستان کی مرکزی ریلیف کمیٹی کے نائب صدر بھی رہے، 1964 ء میں آپ نے ایک اعلیٰ وفد کی قیادت کی جس نے اسلامی اور بعض یورپی ممالک کا دور ہ کر کے انہیں تحریک آزادی کشمیر کے حقائق سے آگاہ کیا، 1965 ء میں مقبوضہ کشمیر کے عوام نے جب انقلابی کونسل کی قیادت میں بھارتی سامراج کے خلاف بغاوت کی تو آپ کو انقلابی کونسل پاکستان نے اپنا ترجمان مقرر کیا۔ غرض یہ کہ آپ درالعلوم دیو بند کے فیض یافتہ، مستند عالم دین، خاتم المحد ثین حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری کے خصوصی شاگرد اور تحریک آزادی کشمیر کے صف اول کے رہنما تھے، 1928 ء سے 1957 تک علماء کشمیر کی واحد تنظیم " آل جموں وکشمیر جمعیتہ اسلام" کے صدر (امیر) کی حیثیت سے فرائض سر انجام دیتے رہے، 1957 ء مئیں اپنی بعض مصروفیات اور مجبوریوں کے پیش نظر عملی جد و جہد سے کنارہ کش ہو گئے مگر اس کے باوجود آپ آخر دم تک جمعیت سے وابستہ رہے اور جمعیہ کو ان کی سرپرستی اور نگرانی کا شرف حاصل رہا، خواجہ عبدالرشید ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ -: " میر واعظ مرحوم دوبار آزاد کشمیر کے صدر بھی رہے لیکن ان کا اصل امتیاز عالم دین کی حیثیت سے تھا، وہ ریاست بھر میں ایک مسلمہ عالم دین اور سیاستی رہنما تھے، کشمیری مسلمان ان کی ذات اور ان کے خاندان سے بے پناہ عقیدت ہے۔

مرحوم ریاست میں تحریک آزادی اور پھر تحریک پاکستان کے زبر دست داعی تھے، 1947 میں وہ ہجرت کر کے سرینگر سے راولپنڈی آ گئے اور یہاں انہوں نے کشمیر یوں کی دینی اور سیاسی رہنمائی جاری رکھی، مرحوم آخری وقت تک آزاد کشمیر ریڈیو سے کشمیر زبان میں قرآن پاک کی تفیسر نشر کرتے رہے۔" کشمیری زبان میں پورے قرآن شریف کا یہ پہلا ترجمہ اور تفسیر ہے جو تین جلدوں پر مشتمل ہے، میر واعظ جہاں علمی حیثیت سے اپنے ہمعصر علماء میں ممتاز تھے وہیں علمی زندگی،عبادت، اور ریاضت اور صدق مقال کے لحاظ سے ان کی زندگی سلف صالحین کا عمدہ نمونہ تھی۔ اہل کشمیر کی دینی اور سیاسی بیداری میں ان کی مخلصانہ جدوجہد کا بڑا حصہ ہے۔ ۲۱ رمضان 1388،۷دسمبر 1968 ء کو روزے کی حالت میں راولپنڈی کے سنٹرل گورنمنٹ ہسپتال میں وصال بحق ہوئے۔ انا للہ و اناالیہ رجعون۔ دوسرے دن لیاقت باغ راولپنڈی میں لاکھوں کشمیریوں اور پاکستانی پاشندوں نے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کی، بعد میں انہیں مظفرآباد میں سپردخاک کیا گیا، مولانا کو یوم وفات سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔ " میر واعظ کشمیر مولانا محمد یوسف شاہ صاحب کی تفیسر قرآن کریم کشمیری زبان میں بہت مقبول رہی ہے اسی مقبولیت پر رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ نے بھی شائع کر کے مفت تقسیم کیا ہے۔ "
واپس کریں