دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سوشل میڈیا ۔دوسری سیاسی پارٹیاں پی ٹی آئی سے پیچھے کیوں ؟
No image اگرچہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں سنہ 2013 کے انتخابات کے پہلے سے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہیں لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) ملک کی وہ پہلی سیاسی جماعت ہے جس نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا بیانیہ ناصرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک بسے ہزاروں پاکستانیوں تک پہنچانے کا کام شروع کیا اور اب بھی یہ اس کام میں دوسری جماعتوں سے کہیں آگے ہے۔

لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگرچہ تحریکِ انصاف سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والی پہلی جماعت تھی تو آج تقریباً ایک دہائی گزرنے کے بعد بھی باقی سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی سے اتنی پیچھے کیوں ہیں اور کیا پی ٹی آئی اس مرتبہ سوشل میڈیا پر کامیابی کو ووٹوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو پائے گی؟
کیا یہ تاریخ کا سب سے بڑا سپیس تھا؟
اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ٹوئٹر خود سپیسز کا ڈیٹا باقاعدگی سے مرتب نہیں کرتا اور 12 جولائی 2021 کے بعد سے ٹویٹر نے اس حوالے سے کوئی اعدادوشمار جاری نہیں کیے۔ تاہم میٹ نوارا اور دیگر سوشل میڈیا کے تجزیہ کار اسے اب تک کا سب سے بڑا سپیس قرار دے رہے ہیں جس میں ایک وقت میں ریکارڈ شرکا (ایک لاکھ 65 ہزار افراد) نے عمران خان کی باتیں لائیو سنیں جبکہ ایک گھنٹے کے پورے سیشن کو تقریباً چار لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد نے جوائن کیا۔

سٹریمنگ گائیڈ لیٹوس گلوبل کے مطابق اس سے قبل یہ ریکارڈ 44 ہزار سامعین کا تھا جنھوں نے کوریا کے کے پاپ سٹار بام بام کی سپیس میں شرکت کی تھی۔

یاد رہے اس سپیس کے وقت عمران خان فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر بھی لائیو تھے جہاں ہزاروں صارفین نے ٹوئٹر سپیس میں عمران خان کی گفتگو کو ویڈیو فارمیٹ کے ساتھ دیکھا اور سنا۔ البتہ سب سے زیادہ تعداد ٹوئٹر پر انھیں سننے کو موجود تھی۔
’سوشل میڈیا ایک ایکو چیمبر‘
جس طرح عمران خان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹر سپیس کو ڈیجیٹل ’جلسے‘ میں بدل دیا، اس کے پاکستانی سیاست پر اثرات کے اس حوالے سے سینئیر صحافی اور کالم نگار نصرت جاوید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کی اکثریت آبادی کی عمریں 18-45 سال کے درمیان ہیں اور تقریباً چھ کروڑ افراد موبائل صارفین ہیں جن میں سے نوجوان سوشل میڈیا پر کافی وقت گزارتے ہیں لہٰذا اثر تو یقیناً ہو گا۔‘

تاہم وہ سوشل میڈیا کو ایک ’ایکو چیمبر‘ قرار دیتے ہیں ’یہ ایک گنبد ہے جس میں آپ اپنی ہی بات کیے جا رہے ہوتے ہیں، دوسروں کو مخاطب نہیں کر رہے ہوتے اور کسی کی رائے تبدیل نہیں کر رہے ہوتے۔‘
نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ یہ چیز آپ کی بنیاد کو تو مضبوط بناتی ہے لیکن اگر آپ اسے انتخابی کامیابی میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں تو ہمارے ہاں ’فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ‘ سسٹم ہے، یعنی جو سب سے پہلے پہنچے۔

وہ کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں امیدواروں کے مابین مقابلہ ہوتا ہے اور وہاں اگر ایک جماعت اپنی بنیاد بنا لیتی ہے تو اس سے 10-15 فیصد ووٹوں پر فرق پڑتا ہے ’لیکن الیکٹیبلز کی اپنی برادری، ڈیرہ اور دھڑا بندی والی حکمتِ عملی ہوتی ہے‘ اور ان کے خیال میں ہمارے ملک میں ابھی سوشل میڈیا انتخابی سیاست پر اتنا اثر انداز نہیں ہوتا۔

’پاکستان کے سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی اجارہ داری ہے‘
نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تحریکِ انصاف وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو سوشل میڈیا کو انتہائی مہارت کے ساتھ استعمال کرتی ہے ’پاکستان کے سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی اجارہ داری ہے اور دوسری جماعتوں کا پی ٹی آئی سے مقابلہ تو دور کوئی موازنہ تک نہیں بنتا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی پاکستان کی واحد جماعت ہے جو 2011 سے کمال مہارت کے ساتھ سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہے اور اس ضمن میں فی الوقت ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا حکمتِ عملی ہے کیا؟
حجا کامران، میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کے ساتھ بطور ڈیجیٹل رائٹس لیڈ منسلک ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں سوشل میڈیا بہت دیر سے آیا مگر وہ آیا ہی پی ٹی آئی کی وجہ سے تھا۔ اُن کے مطابق یہ وہ پہلی جماعت تھی جس نے سوشل میڈیا کا استعمال شروع کیا۔

سنہ 2013 کے انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ اس وقت ٹوئٹر کے بجائے فیس بک زیادہ مقبول تھی اور پی ٹی آئی نے یونیورسٹیوں میں اپنے ایمبیسیڈر بنائے جو نوجوانوں سے فیس بک کے ذریعے بات کرتے جس کی تشہیر پی ٹی آئی باقی پلیٹ فارمز سے کرتی تھی۔ اور نوجوانوں نے دیکھا کہ کوئی ہمارے پاس آ کر ہمارے مسائل پر بات کر رہا ہے، اسی طرح ان کے سپورٹر بڑھے ہیں۔

حجا کے مطابق باقی پارٹیوں نے ان کو دیکھ کر سوچا کہ ’اچھا سیاست میں سوشل میڈیا بھی استعمال ہو سکتا ہے‘ اور اب تو زیادہ تر سیاستدانوں کے بیانات سوشل میڈیا خاص کر ٹوئٹر سے جاری ہو رہے ہوتے ہیں۔

پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا حکمتِ عملی کے حوالے سے حجا کا کہنا ہے اس جماعت نے سنہ 2013 اور 2018 دونوں انتخابات میں نوجوانوں پر توجہ دی جو اپنا زیادہ تر وقت سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر گزارتے ہیں، حتیٰ کہ اس عمر کے نوجوانوں پر جن کی ابھی ووٹنگ کی عمر تک نہیں تھی کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ آگے چل کر یہی لوگ ان کے لیے ووٹ ڈال رہے ہوں گے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ان کے سارے سپورٹر وہ لوگ ہیں جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کرکے بڑے ہوئے ہیں جنھیں سوشل میڈیا کے کردار اور اس کی اہمیت کا اندازہ ہے اور یہ ان نوجوانوں کے لیے پرکشش اس لیے تھا کہ کوئی ان سے ان کی مرضی کے میڈیم پر، ان مسائل پر بات کر رہا تھا جو ان کے لیے اہم تھے۔ روٹی کپڑا مکان کے ساتھ ساتھ انھوں نے ڈیجیٹل پر توجہ دیتے ہوئے ڈیجیٹل طریقے سے بات کی، ہر چیز کو ڈیجیٹائز کر دیا، ڈیجیٹل میڈیا ونگ بنایا، ای گورننس پر توجہ دی۔‘

وہ سرکاری اداروں سے متعلقہ شکایات کے لیے بنائے گئے آن لائن سٹیزن پورٹل کی مثال دیتی ہیں کہ ’اب میں سرکاری دفاتر میں جا کر دھکے کھانے اور رشوت دیے بنا کام نکلوانے کے بجائے بس اپنا فون اٹھا کر آن لائن شکایت کر سکتی ہوں جس کا مجھے جواب بھی ملے گا۔‘

حجا کا کہنا ہے ایسی سہولیات سے انٹرنیٹ استعمال کرنے والا نوجوان طبقہ کیسے نہ متاثر ہوتا۔
پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا حکمتِ عملی کے حوالے سے پاکستان میں ڈیجیٹل حقوق کی ماہر اور ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) کی بانی نگہت داد کا ماننا ہے کہ نا صرف پی ٹی آئی کے لوگ سوشل میڈیا کے ٹرینڈز اور پروڈکٹس پر نظر رکھتے ہیں بلکہ انھیں ان سب ٹولز پر اجارہ داری بنائے رکھنی بھی آتی ہے۔

کیا پی ٹی آئی اس حمایت کو ووٹوں میں تبدیل کر پائے گی؟
تو کیا پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا پر اجارہ داری سپیسز میں ریکارڈ تعداد سے لے کر کروڑوں ٹویٹس والے ہیش ٹیگز اور جلسوں میں شرکا کی تعداد کے مقابلے تک ہی رہ جائے یا پی ٹی آئی اسے ووٹوں میں بھی تبدیل کرنے میں کامیاب ہو پائے گی؟

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ’ہو سکتا ہے کہ اس مرتبہ نوجوان زیادہ تعداد میں تحریکِ انصاف کو ووٹ ڈالیں مگر شہروں اور دیہاتوں کے مقامی حقائق اس سے مختلف ہوتے ہیں۔‘

وہ اس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ فرض کریں لاڑکانہ یا سکھر میں ایک شخص تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہا ہے تو شاید وہ جیت جائے۔ ’شہروں کی حد تک تو سوشل میڈیا اثرانداز ہو گا مگر بہت بڑے پیمانے پر نہیں۔‘
باقی سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی سے اتنا پیچھے کیوں ہیں؟
نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ وہ ’پرانی وضع کے سیاستدان ہیں اور وہ اپنے حلقوں اور اپنے اپنے اعتبار سے (اگرچہ انھیں نہیں کرنا چاہیے) سوشل میڈیا کے استعمال میں بے چینی محسوس کرتے ہیں، ان کا اپنا ایک روایتی انداز ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ابھی ہمارا معاشرہ اتنا تبدیل نہیں ہوا اور ہم اپنے طور پر مقابلہ کر لیں گے۔‘

وہ فرانس کے ایکرک زیمور کی مثال دیتے ہیں کہ ٹی وی پروگرام میں یا سپیس میں تو وہ رونق لگا دیتا ہے لیکن ابھی صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں انھیں صرف سات فیصد ووٹ ملے ہیں۔

تاہم حجا کامران کے مطابق دوسری جماعتیں مقابلے کی کوشش تو کر رہی ہیں مگر ان کی حکمتِ عملی یہ رہی ہے کہ وہ ہمارے ماں باپ کی عمر کے لوگوں کو اپروچ کرتے رہے ہیں جنھیں موبائل یا کمپوٹر چلانے کے لیے بھی ٹریننگ کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ عمران خان نے نوجوانوں سے ان کے مفاد کی بات ان کے پلیٹ فارمز پر آ کر کی ہے۔ بشکریہ: بی بی سی
واپس کریں