پاکستان کے وہ سیاستدان جنھیں غداری کے القابات سے نوازا گیا
جب سے اٹھارویں صدی کے آخری نصف میں چالیس، بیالیس سال کے فرق سے ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں میر جعفر اور میر صادق برصغیر میں غدار قرار پائے، یہاں کی سیاست میں مخالفین کے لیے ان ناموں کا ان کے بقول غداری کے مترادف کے طور پر استعمال معمول رہا ہے۔ سیاسی مخالفین کو بُرے نام یا القابات دینا اس کے علاوہ ہے۔
صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ تحریک آزادی ہی سے ایسی زبان استعمال ہوتی آئی ہے کہ سیاسی مخالفین کو کافر یا غدار قرار دیا گیا۔ کبھی بانی پاکستان محمد علی جناح اس کی زد میں آئے، کبھی ابوالکلام آزاد، کبھی حسین شہید سہروردی، کبھی غفارخان تو کبھی جی ایم سید۔
تاریخ کے استاد ڈاکٹر طاہر کامران کے مطابق ’نواز شریف بھی بے نظیر بھٹو کے لیے بُرے نام استعمال کرتے رہے۔ دیگرخواتین سیاست دانوں مثلاً شیریں مزاری، مریم اورنگ زیب اور مریم نواز کے لیے بھی توہین آمیز القابات تراشے گئے۔راجا پرویزاشرف کو ’راجا رینٹل‘ کہا گیا، مولانا فضل الرحمٰن کو ’ڈیزل‘ وغیرہ۔ ویسے خواجہ آصف ایسی اصطلاحیں گھڑنے میں ماہر ہیں۔‘
ذوالفقار علی بھٹو نے ستمبر 1968 میں حیدر آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کنونشن میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’ایک بار دنیا کی ایک بہت بڑی طاقت کے نمائندے نے میرا بازو تھام کر کہا تھا ’بھٹو! اگر تم پاکستان میں ہمارے راستے سے ہٹ جاؤ تو اس کے بدلے میں ہم تمہیں وہ سب کچھ دینے کو تیار ہیں جس کی تم خواہش کرو گے‘ میں نے غصے سے اپنا بازو چھڑا کر اس سامراجی کو جواب دیا تھا 'خبردار جو تم نے پھر کبھی ایسی جرات کی‘ اگر تم نے چند وطن فروشوں کو خرید لیا ہے تو یہ خیال مت کرو کہ پاکستان میں ہر شخص میر جعفر اور میر صادق ہے۔ میں شعیب (ایوب دور میں وزیر خزانہ) نہیں جس نے وطن دشمنی کے صلے میں واشنگٹن اورسوئٹزر لینڈ میں روپیہ جمع کر رکھا ہے۔‘
دو سال پہلے پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما ایاز صادق کی جانب سے انڈین پائلٹ ابھینندن کی رہائی کے حوالے سے متنازع بیان دینے کے چند دن بعد لاہور کے کئی علاقوں میں انھیں 'غدار' قرار دیتے بینرز آویزاں کر دیے گئے۔ پوسٹرز میں ایاز صادق کو ’میر جعفر اور میر صادق‘ کہا گیا۔ ان کی تصویر انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور ونگ کمانڈر ابھینندن کے ساتھ لگائی گئی۔
پچھلے کچھ عرصے میں وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی شہباز گل بلوچستان کے رہنما محمود اچکزئی کے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ وہ جدی پشتی پاکستان کے خلاف ہیں اور میر جعفر، میر صادق ہیں۔
اسی سال جنوری میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے کہا تھا حکومت کی حلیف جماعتیں ایم کیوایم، ق لیگ اور جی ڈی اے ملک کے لیے سوچیں، اگر ان اتحادی جماعتوں نے بعض معاملات میں حکومت کا ساتھ دیا تو ان کا نام میر جعفر و صادق کے ساتھ لکھا جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اسد عمر کا کہنا تھا کہ ملک کے سیاست دانوں میں میر صادق اور میرجعفر بھی موجود ہیں۔
جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے سٹیٹ بینک کو بہت کم قیمت پر ایک ارب ڈالر کے عوض آئی ایم ایف کو بیچ دیا اورگورنر بینک مالیاتی وائسرائے بنا دیا ہے، گورنر اب پارلیمان کو جوابدہ نہیں رہا۔ سراج الحق کا کہنا تھا کہ پوری قوم کے گلے میں غلامی کاپٹہ ڈال دیاگیا ہے اور میر جعفر کا کردار ادا کیا گیا ہے۔
اور حالیہ دنوں میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ’عدم اعتماد ابھی نہیں ہوئی تھی اور انھیں پہلے سے پتا تھا کہ باہر ملک میر جعفر میر صادق جیسے سہولت کاروں کی مدد کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔‘ یہ سازش آپ کو بیرونی طاقتوں کا غلام بنانے کی ہے۔ ایک میر جعفر کو ایک سازش کے ذریعے ہم پر مسلط کیا گیا ہے۔‘
ایسا انھوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کے سربراہ نے ہجوم کو سمجھایا کہ میر جعفر کون تھے۔
مگر ایسا پاکستان تک محدود نہیں۔
گذشتہ سال بھارت میں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی نے وفاداری تبدیل کر کے بی جے پی میں شامل ہونے والے پارٹی رہنماؤں کو میر جعفر قرار دیا۔
مخالفین کو غدار کہنے یا انھیں بُرا نام دینے کا اثر کیا ہوتا ہے آخر؟ سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ ’اس سے لوگوں میں جوش پیدا ہوتا ہے، مخالفین کے لیے نفرت اور غصہ ظاہر ہوتا ہے۔‘
لیکن سیاست کا چلن ایسا ہے کہ کل کے حریف آج کے حلیف بن سکتے ہیں اور کل کے ’غدار‘ آج کے ’محب وطن‘ یا اس سے اُلٹ!
بشکریہ :بی بی سی
واپس کریں