دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بلوچستان کی تکلیف معاشی نہیں سیاسی ہے ۔ وسعت اللہ خان
No image گذشتہ تین دہائیوں میں بلوچستان کی سیاسی ، سماجی و اقتصادی محرومی کے خاتمے کے نام پر جتنے میگا پیکیجز کا اعلان ہوا اگر ان میں سے پچاس فیصد پر بھی عمل ہو جاتا تو آج بلوچستان بھی صوبہ پنجاب اور سندھ نہیں تو خیبر پختون خواہ کے ہم پلہ ضرور ہو جاتا۔پرویز مشرف دور میں بلوچستان کے لئے کل ملا کے پانچ ارب روپے کی ترقیاتی اسکیموں کا اعلان ہوا جبکہ بغاوت ، شورش ، بدامنی ( آپ اپنی آسانی کے لئے جو بھی کہہ لیں ) کا تازہ دور بھی پرویز مشرف کی مقتدرہ کے ہوتے شروع ہوا۔
بلوچستان میں انیس سو سینتالیس سے آج تک مرکزی حکومت کی لاعلمانہ اور امتیازی پالیسیوں کے خلاف مختلف بلوچ تنظیموں یا قبائل نے کم ازکم چار بار ہتھیار اٹھائے ۔مگر تازہ شورش پاکستان بننے کے بعد اب تک کی سب سے طویل بلوچ قوم پرست مسلح تحریک ہے، جس نے چھبیس اگست دو ہزار چھ کو اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد زور پکڑا اور سترہ برس بعد بھی تسلسل نہیں ٹوٹ پایا۔
دو ہزار تیرہ تا دو ہزار اٹھارہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے سوا ہر سیاسی و غیر سیاسی حکومت نے بلوچستان میں بے روزگاری کے خاتمے ، صحت ، تعلیم اور معیشت کا معیار بڑھانے کے لئے اربوں روپے کے پیکیجز کا اعلان کیا۔
مشرف حکومت نے کوسٹل ہائی وے سمیت صوبے کا مواصلاتی نظام بہتر بنانے کی کوشش کی ۔گوادر کو چین کی مدد سے ایک جدید بندرگاہ میں تبدیل کیا، جو بعد ازاں سی پیک کا نقطہِ آغاز ثابت ہوئی۔ درجن بھر اچھے تعلیمی ادارے بھی بنوائے مگر یہ سب کچھ سیاسی مرہم پٹی کے بغیر اور مقامی آبادی کو اعتماد میں لیے بغیر تھوپا گیا۔
ترقی کے نام پر اس دور میں یہ بھی ہوا کہ گوادر میں صرف پچیس دن کے اندر ایک سو پچیس رہائشی اسکیموں کا اعلان ہوا اور ان میں نوے فیصد سرمایہ کاری کراچی، پنجاب اور اسلام آباد سے ہوئی۔ لہذا مقامی سطح پر عدم تحفظ اور بڑھ گیا۔
سابق گورنر بلوچستان اور وفاقی وزیر جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ کے بقول ہر وفاقی حکومت یہی راگ الاپتی آئی کہ یہ بلوچ سردار ہیں، جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ مشرف دور میں چوہتر میں سے اکہتر سردار حکومت کے ساتھ تھے۔تب مشرف دور میں کیا بلوچستان پیرس بنا دیا گیا ؟
گویا محرومی کے زخم پر اقتصادی پھاہا رکھنے سے بھی خاص افاقہ نہیں ہو سکا ۔سڑکیں عام آدمی اور ریاست کے مابین خلیج کم کرنے کے بجائے فاصلہ اور بڑھا گئیں ( اس کا نتیجہ پندرہ برس بعد برآمد ہوا جب مقامی سطح پر مولانا ہدایت اللہ کی قیادت میں مکران کی ساحلی پٹی کو حق دو تحریک کے نعروں نے اپنی گونج کی لپیٹ میں لے لیا )۔
دورِ مشرف کے بعد یوسف رضا گیلانی حکومت نے چوبیس نومبر دو ہزار نو کو آغازِ حقوقِ بلوچستان کے نام سے ایک روزگاری و اقتصادی پیکیج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا۔
بلوچستان کے نوجوانوں کے لئے وفاقی ڈھانچے میں چھ فیصد ملازمتی کوٹے کے علاوہ اس پیکیج کے تحت پندرہ ہزار اضافی ملازمتیں تخلیق کی گئیں مگر اگلے چودہ برس کے دوران ان میں سے صرف دس ہزار آسامیوں پر تعیناتیاں ہوئیں جبکہ پانچ ہزار آسامیاں چھ فیصد طے شدہ کوٹے میں ضم کردی گئیں یعنی عملاً انہیں ختم کر دیا گیا۔
جو دس ہزار آسامیاں بھری گئیں ان میں سے بھی زیادہ تر محکمہ تعلیم میں تدریسی عملے کی صورت میں ، محکمہ صحت میں بطور ہیلتھ ورکرز اور دیگر محکموں میں ادنی سطح پر بھری گئیں۔ ان میں سے کتنے فیصد آسامیاں میرٹ پر بھری گئیں اور کتنی آسامیوں پر دیگر صوبوں کے لوگوں نے بلوچستان کے ڈومیسائل بنوا کے نقب لگائی۔ اس بارے میں حتمی اعداد و شمار کہیں ہیں بھی تو عام نگاہ کی دسترس سے دور ہیں۔
دو ہزار تیرہ سے سترہ تک مسلم لیگ ن کے مخلوط دور میں ڈاکٹر عبدالمالک اور ثنا اللہ زہری کی گردشی وزارتِ اعلی میں بلوچستان کو وفاقی بجٹ میں مختص گرانٹ کے سوا کوئی اضافی امداد نہیں ملی۔ البتہ عمران خان نے وزیرِ اعظم بننے کے سترہ ماہ بعد جنوبی بلوچستان کا پہلا دورہ کیا اور اس خطے کے لئے ڈیڑھ سو ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا۔
جنوبی بلوچستان کے نو اضلاع میں سوا تین لاکھ گھروں کو گیس اور بجلی کی سہولتیں کی فراہمی ، ڈیڑھ لاکھ ایکٹر نئی زمین کی آبادکاری کے لئے سولہ آبپاشی ڈیمز کی تعمیر اور تربت ائیرپورٹ کی توسیع کا اعلان کیا گیا مگر جتنی رقم کا اعلان کیا گیا اس کا لگ بھگ پانچ فیصد ہی ریلیز ہو سکا۔ باقی غائب ہو گیا یا سردخانے میں آڑے وقتوں کے لئے محفوظ کر لیا گیا تاکہ آگے چل کے سیاسی بندربانٹ میں کام آ سکے ۔یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
بلوچستان اسمبلی کے سابق اسپیکر اسلم بھوتانی کے بقول یہ اقتصادی و ترقیاتی پیکیج بھی دراصل اسلام آباد کے سیکرٹیریٹ میں بیٹھے بابوؤں نے تیار کر کے سیاسی حکومت کو تھما دیا اور وفاقی حکومت نے یہ لالی پاپ بلوچوں کو تھما دیا اور بہت سی مشرف دور کی نامکمل اسکیموں پر بھی تازہ چونا پھیر کے اس نئے پیکیج میں پھر سے شامل کر لیا گیا۔
اتنے سارے ترقیاتی و اقتصادی پیکیجز کے نام پر اربوں روپے مختص کرنے کے بعد بھی حالت یہ ہے کہ بلوچستان میں یونیورسٹیوں اور کالجوں سے ہر سال جو پچیس ہزار گریجویٹ نکلتے ہیں ان میں سے محض دو ہزار گریجویٹس کو ہی ان کی تعلیم کے ہم پلہ ملازمت ملتی ہے ۔ہر ایک سرکاری آسامی کے لئے اوسطاً چار سے چھ ہزار درخواستیں آتی ہیں۔
جو بھی ترقیاتی بجٹ نصیب ہوتا ہے اس کا بہت بڑا حصہ سیکورٹی اور اتتظامی مدوں میں کھپ جاتا ہے ۔ جو بچ جاتا ہے وہ حکمران اشرافیہ میں بٹ بٹا جاتا ہے اور جو پانچ سے دس فیصد لالچ و ہوس کے پنجوں سے گر جاتا ہے اسے عام آدمی ُچگ لیتا ہے ۔
پھر بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر بہت سے بلوچ وفاقی پالیسیوں سے اتنےنالاں کیوں ہیں۔ نواب خیر بخش مری مرحوم ایک بات کہا کرتے تھے کہ بلوچ اس ریاست سے نفرت نہیں کرتےبلکہ بیزار ہیں۔
سابق وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک کے بقول بلوچ اب اقتصادی ترقی کے لئے نہیں اپنی شناخت کے لئے بے چین ہیں۔سیاسی حقوق کی غیر موجودگی میں اقتصادی حقوق کوئی مطلب ہی نہیں۔ مسئلہ روٹی کے چند ٹکڑوں یا پکی مہنگی سڑک کا نہیں ۔مسئلہ انتظامی خود مختاری اور وسائل پر کنٹرول کا ہے ۔
جو ہم نہیں لینا چاہتے وہ زبردستی ہماری جیب میں ڈال رہے ہیں اور جو ہم لینا چاہتے ہیں وہ زبردستی چھین رہے ہیں۔
واپس کریں