دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مسلم دنیا اور سامراجی یلغار ۔پروفیسر طفیل ڈھانہ
No image تہذیبیں اور معاشرے عقل و شعور سے محروم نہیں ہوتے اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتےکہ ہمارے اجداد کم عقل تھے ۔پھر کیا ہوا کہ مشرق سائنسی علوم میں ترقی نہ کر سکا۔ میں نے یہ سوال عام لوگوں سے پوچھا ہے نابغوں کی تاریخ شناسی پر مبنی آراء سے سمجھنے میں مدد ملی کہ پندرھویں صدی سے قبل تک معاشی نظام میں تخلیق کا اہم کردار شامل نہ ہوا تھا ملکوں اور معاشروں کا معاشی انحصار قدرتی پیداوار پر تھا۔ تجارتی سامان میں زرعی اجناس معاشی اہمیت کی حامل تھیں گھوڑے ، اونٹ ، بھیڑ بکریاں تجارتی معشیت کا حصہ تھے سونا چاندی ، قیمتی پتھر اور جواہرات امراء کے لیے مخصوص تھے مصنوعات میں لوہے کے ہتھیاروں ، برتنوں اور کپڑے کے علاوہ شاہد ہی کوئی اہم تخلیق شامل تھی ۔

یہ وہ دور ہے جس میں تجارت اور معشیت کی بنیاد مصنوعات کی بجائے قدرتی پیداوار پر تھی۔ مسلم تہذیب کو عروج ملا تو بیشتر زرعی ملکوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا تجارتی راستوں پر بھی ہماری فوجوں نے ناکے لگا لیے چونکہ زرعی پیداوار ہماری دولت تھی اسلیے تجارت سے دولت اکھٹی ہونے لگی حکمران اور تاجر دولت مند ہو گئے اس دور میں بہادر جرنیلوں اور فتوحات کی اہمیت زرعی اہمیت کے علاقے فتح کرنے میں تھی۔ لہذا ایک معاشی ، سیاسی اور سماجی نظام تشکیل پایا جسکی معاشی بنیاد قدرتی پیداوار تھی مسلم تہذیب اس قدر خوشحال تھی کہ اسے تخلیق کرنے کی ضرورت ہی نہ رہی قدرت کے تخلیق کردہ وسائل مسلمانوں کی گرفت میں تھی لہذا عروج کے زمانے میں جن لوگوں نے تخلیقی فکر و دانش کا ذکر کیا انھیں نامعقول کہہ کر دبا دیا گیا ۔

مغرب کے پاس زرعی میدان نہیں تھے انکے پاس تجارت کے لیے زرعی اجناس کی قلت تھی اور تجارتی راستے بھی آزادانہ نہ تھے مغرب کی معشیت تخلیق کی محتاج تھی لہذا مغرب میں سائنسی علوم کی ترقی کے لیے کام کرنے والے دماغوں پر پابندی کی کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔ مغرب تخلیقی سفر پر چل پڑا سائنسی علوم پیداواری ٹیکنالوجی کی شکل اختیار کرنے لگے مغرب تخلیق کے شعبوں میں آگے بڑتا گیا جس کا آغاز زمین کے پیٹ سے کوئلہ اور دھاتیں نکالنے سے ہوا
مسلم تہذیب زمین کی سطح پر فصلوں اور جانوروں پر قابض تھی مغرب زمین کھود کر معدنیات نکالنے کی طرف چلا گیا۔

مشرقی تہذیب کا انحصار زراعت پر ہوا جبکہ مغرب نے صنعت کو ترقی دی جو کہ سائنس و ٹیکنالوجی میں دریافتوں اور ایجادات کے بغیر ممکن نہ تھی۔ مشرق کے معاشی ، سیاسی اور سماجی کلچر میں تخلیق کی بجائے فتوحات کی اہمیت زیادہ تھی جبکہ مغرب کو تخلیق پر انحصار کرنا پڑا مشرقی کلچر نے جنگ کا نظریہ اپنایا فتوحات حاصل کیں ہم مشرق والوں نے جنگی کلچر اختیار کر لیا مغرب تخلیقی کلچر کی جانب سفر کیا اور تخلیق کے افق پر قبضہ کر لیا۔ مغرب نے سماجی ارتقاء کا سفر جاری رکھا جبکہ مشرق کے سیاسی علما اج تک پندرھویں صدی سے قبل کے سیاسی سماجی اور جنگی کلچر سے وابستہ رہنے پر اصرار کرتے ہیں۔
واپس کریں