دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کفایت شعاری کی ”افادیت“ کیپٹل آرڈر کا بنیادی تحفظ ہے
No image کفایت شعاری کی تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیں۔ پاکستان میں ایک عام کنفیوژن ہے جس کے تحت کفایت شعاری کی پالیسیوں کو غیر ضروری اخراجات کے خلاف ترجیح دینے یا حکومت چلانے اور سرکاری اخراجات میں کمی کے حوالے
سے”بیلٹ ٹائٹننگ“ کے طور پر لیا جاتا ہے لیکن اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو کفایت شعاری کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے کیونکہ اس سے نہ صرف معاشی سرگرمیاں کم ہوتی ہیں، مجموعی پیداوار اور سپلائی کو نقصان پہنچتا ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے، بلکہ اس سے غربت اور عدم مساوات پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

معاشی سرگرمیوں کو کم کرنے میں، درحقیقت کفایت شعاری نے نہ صرف کم اقتصادی زر مبادلہ میں گھریلو وسائل کی نقل و حرکت کو کم کیا ہے۔ سب سے اہم اور بڑی بات یہ ہے کہ یہ عمل اشرافیہ کی گرفت کی صلاحیت کو برقرار رکھتا ہے تاکہ وہ ان کے استخراجی معاشی ادارہ جاتی ڈیزائن کو مضبوط بنانے کے لیے عوامی پالیسی پر اثر انداز ہو سکیں۔

معروف ماہر معاشیات، کلارا ای ماتائی نے اپنی 2022 کی کتاب 'دی کیپیٹل آرڈر میں لکھا کہ”کس طرح معاشی ماہرین نے کفایت شعاری ایجاد کی اور فسطائیت کی راہ ہموار کی“۔ انہوں نے کتاب میں معاشی سرگرمیوں دونوں پر کفایت شعاری کے خطرات کی نشاندہی کی اور کفایت شعاری اور اشرافیہ کی گرفت کے درمیان تعلق کو مضبوط کرنے کو آشکارا کیاہے۔

کفایت شعاری سرمایہ دارانہ معیشت کو سنبھالنے کا ہی ایک ذریعہ ہے اور معاشروں اور معیشتوں میں کفایت شعاری کی مسلسل تعیناتی سیاسی کی ایک شکل ہے۔ غیر معقولیت، غلط معاشی نظریہ پر مبنی ایک غلط معاشی پالیسی جو اپنے بیان کردہ مقاصد کو حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ یاد رہے عالمی معیشت کو مستحکم کرنے کے سامراجی وعدے کے خلاف، 1920 کی دہائی کا کفایت شعاری کا منصوبہ ایک بڑی ناکامی تھی۔طبقاتی ڈھانچے کو مسلط اور مضبوط کرنے کے لیئے کفایت شعاری کی صلاحیت ہی سچ ہے اور اس کی”افادیت“ درحقیقت، کیپٹل آرڈر کا بنیادی تحفظ تھا اور ہے۔

انگریزی اخبار بزنس ریکارڈ میں شائع محترم ڈاکڑ عمر جاوید کے کالم”کفایت شعاری کو سمجھئے“ سے اقتباس

ترجمہ و ایڈیٹنگ:احتشام الحق شامی
برائے”بیدار ڈاٹ کام“
واپس کریں