دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
”اسلامی ٹچ“ اور مفادات کا حصول ۔احتشام الحق شامی
No image قائدِا عظم محمد علی جناح سیکولر ذہن اور سوچ رکھتے تھے،ان کا طرزِ زندگی اس بات کی واضع عکاسی کرتا ہے لیکن انہوں نے اپنے وقت کے بدلتے حالات اور عوام کے مذہبی رجحانات کو بھانپتے ہوئے مذہب کے نام پر ایک آذاد ملک کی تحریک چلائی اور کامیاب رہے۔بھٹو شہید بھی سیکولر سوچ کے مالک تھے۔ ان کا طرزِ زندگی بھی اس امر کا عکاس ہے۔ کہتے ہیں ایک مرتبہ انہوں نے کہا تھا کہ اپنی جیب سے پیتا ہوں عوام کا خون پیتا نہیں لیکن قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا کریڈٹ ابھی تک پاکستان پیپلز پارٹی وصول کر رہی ہے اور خود کو خالص مسلمان ثابت کرنا چاہتی ہے۔

سابق آمر جنرل ضیاء الحق نے بھی اپنے ناجائز اقتدار باالفاظِ دیگر عسکری سیاست بازی کو دوام دینے کے لیئے قومی اسمبلی کی جگہ اسلامی”مجلسِ شوری“بنائی، مذہبی شدت تنظیموں کو پروان چڑھایا اور پھر اس ”ٹول“کو افغانستان میں کامیابی سے استعمال کیا۔مرحوم آمر نے اپنا حلف اور آئین توڑا اور اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے کے بعد90 دنوں میں انتخابات کروانے کا اعلان بسم اللہ پڑھ کر کیا تھا لیکن مرحوم دینِ اسلام کے”مذہبی یا اسلامی ٹچ“ پر ملک میں برسوں ناجائز طور پر حکومت کرتے رہے۔

بظاہر ہماری اشٹبلشمنٹ یعنی فوج کا ماٹو”جہاد فی سبیل اللہ“ ہے لیکن پوری قوم نے دیکھاکہ ہماری اشٹبلشمنٹ بار بار امریکہ کا آلہِ بن کر اغیار کی جنگوں میں استعمال ہوئی اور جس کے نتیجے میں ہمسایہ ملک افغانستان کے ہی نہیں بلکہ ہزاروں بے گناہ پاکستانی شہری بھی لقمہِ اجل بنے اور برسوں تک ملکِ پاکستان ”اسلامی ٹچ“ کے باعث منشیات کے لعنت، اسلحہ کی سمگلنگ،کلاشنکوف کلچر اور بد امنی کا شکار رہا۔
ہم طنزیہ انداز میں سابق کٹھ پتلی وزیرِا عظم عمران خان کے ”اسلامی ٹچ“کی بات تو کرتے ہیں لیکن مندرجہ بالا حقائق کو یکسر انداز کر دیتے ہیں۔ گویا”اسلامی ٹچ“ کوئی نئی چیز نہیں سادہ لوح،غریب اور کم پڑھے لکھے عوام کو بے وقوف بنانے کا پرانا اور آزمودہ سامراجی ہتھیار ہے۔

ماضی کی سیاست بازی میں خطہِ بر صغیر ہی نہیں بلکہ یورپ تک”مذہبی ٹچ“ کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اور مغربی عوام میں تعلیم اور سیاسی شعور پیدا ہونے کے باعث وہاں کی اشٹبلشمنٹ نے عوام کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور مذہبی ٹول یعنی مذہبی ٹچ کو محض ویٹی کن سٹی تک محدود کر دیا اور یوں یورپی ممالک سماجی،معاشی،سیاسی اور دفاعی اعتبار سے کامیاب اور خوشحال ممالک بن گئے۔

ابھی کل کی بات ہے بنگلہ دیشی اشٹبلشمنٹ نے مذہبی ٹچ کو ایک حد میں رکھا، زمینی حقائق کے مطابق اپنے سسٹم کو ڈھالا اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو گیا لیکن بر صغیر کے باقی دو ممالک یعنی پاکستان اور بھارت میں ”اسلامی ٹچ“ کی سیاست بازی کب ختم ہو گی اور کب اس خطے کے کروڑوں عوام بھی خوشحال ہوں گے اور سرکاری مذہبی ملاوں کے بنائے ہوئے خود ساختہ عقیدوں سے آذادی اور نجات حاصل کر سکیں گے۔
واپس کریں