دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نئی حکومت کی معاشی پالیسی میں اسحاق ڈار کا کیا کردار ہو گا؟
No image پاکستان میں قائم ہونے والی نئی مخلوط حکومت کو درپیش مسائل میں سرِفہرست معیشت کا شعبہ ہے جو موجودہ حکومت کے مطابق تحریک انصاف کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بُری صورتحال کا شکار ہے۔

نئی حکومت کو مہنگائی کی بارہ فیصد سے زائد شرح، ڈالر کی قیمت 188 روپے، رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ میں 35 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ، زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر 17 ارب ڈالر اور مرکزی بینک کے پاس 11 ارب ڈالر ورثے میں ملے۔

جبکہ دوسری جانب تیل و اجناس کی عالمی سطح پر بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے مقامی قیمتوں پر بھی دباؤ برقرار ہے جو ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ کر رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں نواز لیگ کی سربراہی میں مخلوط حکومت کو معاشی سطح پر مشکل فیصلوں کے کڑے امتحان کا سامنا ہے اور اس سلسلے میں معاشی ٹیم کے رکن اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کردار ایک بار پھر اہم بتایا جا رہا ہے۔

اسحاق ڈار نومبر 2017 سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ اگرچہ گذشتہ روز مفتاح اسماعیل کو مشیر برائے خزانہ کا قلمدان سونپا گیا ہے تاہم اسحق ڈار کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پس پردہ اسحاق ڈار اس وقت نئی حکومت کی معاشی پالیسی کو مرتب کرنے میں سرگرم ہیں۔

سابقہ وفاقی وزیر خزانہ کے قریبی ذرائع کے مطابق اسحاق ڈار نے نئی حکومت کے آنے کے بعد بیک گراؤنڈ میں کام شروع کر دیا ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف نے ان سے معیشت کی صورتحال پر مشاورت بھی کی ہے۔

ان ذرائع کے مطابق ان کی پاکستان واپسی جلد متوقع ہے۔ اسحاق ڈار پاکستانی معیشت اور ڈالر کی قیمت کو نیچے لانے کے حوالے سے کیا سوچتے ہیں اس بارے میں انھوں نے بی بی سی اُردو سے خصوصی گفتگو کی ہے، تاہم پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ بیرون ملک کیوں مقیم ہیں۔


پاکستان میں ڈالر کی قیمت کا جب ذکر ہوتا ہے تو اسحاق ڈار کا نام بھی فوراً ذہن میں آتا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو مسلم لیگ نواز کا معاشی دماغ سمجھے جاتے ہیں ان کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ ڈالر کی قیمت 160 روپے تک نیچے آ سکتی ہے

اسحاق ڈار سنہ 2013 میں مرکز میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کے وفاق وزیر خزانہ تھے اور انہوں نے اپنے دور میں ایک ڈالر کی قیمت کو 104 روپے تک محدود رکھا تھا۔
اسحاق ڈار کا معیشت کی بہتری کا وژن کیا ہے؟
نئی حکومت کی معاشی پالیسی پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت سٹرکچرل ریفارمز اور مالیاتی و زری پالیسیوں کو نئے سرے سے مربوط کرے گی۔ انھوں نے کہا آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کو دوبارہ ٹریک پر لائیں گے اور اس سلسلے میں آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ پروگرام کو بحال کیا جا سکتا ہے یا ہو سکتا ہے کہ ایک نیا پروگرا م آئی ایم ایف کے ساتھ کیا جائے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ ملکی آمدنی میں اضافے اور اخراجات میں کٹوتی کے لیے اصلاحات کی جائیں گی۔ انھوں نے کہا یہ پورا ایک اصلاحات کا پروگرام ہوگا جس کا اثر ڈالر کی قیمت کے ساتھ دوسرے معاشی اشاریوں پر بھی پڑے گا۔ انھوں نے کہا تحریک انصاف کی حکومت یہ کام نہیں کر سکی جن میں خاص سٹرکچرل ریفارمز تھیں جو معیشت میں ترقی کے لیے بہت لازمی تھیں۔

ڈار نے کہا اس کے ساتھ ریونیو میں اضافے کو بڑھائیں گے اور اپنے اخراجات کو کم کریں گے تاکہ مالیاتی خسارے کو نیچے لا سکیں۔

اسحاق ڈار نے کہا مسلم لیگ نواز کے گذشتہ دور حکومت میں جب اصلاحات کی گئیں تو 2014 سے روپیہ مستحکم شروع ہونا ہوا۔

ڈار نے بتایا کہ 12 دسمبر 2017 میں عالمی جریدے 'بلومبرگ' نے پاکستانی کرنسی کو 2014 سے جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ مستحکم کرنسی قرار دیا تھا تاہم اس کے بعد ملک میں سیاسی بحران عروج پر پہنچا اور ڈان لیکس اور پانامہ لیکس ہوئیں جس کے بعد جولائی 2017 میں میاں نواز شریف کی حکومت ختم ہو گئی۔

انھوں نے کہا ساری چیزیں مسلم لیگ نواز کے ریڈار پر ہیں اور جب ہم اپنے منصوبے پر عمل کریں گے تو روپے کی قدر میں بہتری اور اس میں استحکام آئے گا۔

کیا نئی حکومت ڈالر کی قیمت کم کر پائے گی؟
سابق وزیر خزانہ کی جانب سے ڈالر کی قیمت میں نمایاں کمی کے دعوے کو کرنسی اور معیشت کے ماہرین اس حد تک تسلیم کرتے ہیں کہ نواز لیگ کی ڈالر کو کنٹرول کرنے کی حکومت دوسری حکومتوں کے مقابلے میں اچھی رہی ہے اور جب بھی نواز لیگ اقتدار میں آتی ہے تو کاروباری طبقے میں اعتماد کی بحالی ہوتی ہے۔
بشکریہ :بی بی سی
واپس کریں