دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سردار کو نام سے ہٹاؤ یا سر کو دار پہ چڑھاؤ۔حبیب کریم
No image تاریخی بلوچ قبائلی نظام ہو یا نوآبادیاتی سنڈیمن سرداری نظام۔ دونوں فرسودہ اور جابرانہ نظام ہیں۔ اگر رابرٹ سنڈیمن کے متعارف کردہ سرداری نظام کو آج تک موجودہ نوآبادیاتی طاقت بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس میں بلوچ قبائلی نظام کا کردار بھی ہے۔ سنڈیمن سے قبل بھی بلوچ سماج میں غلام داری نظام رائج تھا۔ اور غلاموں کی سب سے زیادہ تعداد بھی قلات رخشان اور پھر مکّران میں تھی۔

بیسویں صدی کے اوائل تک سینکڑوں غلام تو صرف میرے علاقے خاران میں تھے۔ سنڈیمن کے آنے سے پہلے بھی قبائلی تفریق اور ذات پات کا انسانیت دشمن نظام ہمارے سماج میں موجود تھا۔ ایک "نیچ" قبیلے سے تعلق رکھنے والے شخص کا خونِ بہا تب بھی ایک "اونچے" قبیلے کے شخص کے مقابلے میں نصف سے بھی کم تھا۔ صنفی جبر تب بھی موجود تھا۔ یہ سب محرّکات اور خرافات سنڈیمن سے پہلے موجود تھے جنہوں نے سنڈیمن کے نوآبادیاتی پراجیکٹ کو پنپنے کا ماحول فراہم کیا۔ درست ہے کہ صرف بلوچ سماج میں نہیں بلکہ برصغیر سمیت پوری دنیا میں قبائلی جاگیرداری نظام وجود رکھتا رہا ہے۔ لیکن کچھ اقوام نے اس سے چھٹکارا حاصل کیا اور ترقی کے مزال طے کیے۔ جبکہ ہمارا قبائلی نظام ہماری پاؤں کی زنجیر رہا ہے۔ نوآبادیاتی طاقتوں نے اس زنجیر کو مزید مضبوط بنا دیا۔

تاریخ تلخ ہے۔ اس کڑوے گھونٹ کو برداشت کرنا پڑے گا۔ آغا عبدالکریم کوئی قوم پرست نہیں تھا۔ ایک سردار جسے اپنے تخت کے چلے جانے کا خوف تھا نا کہ بلوچ کے بکھرنے کا اور سرزمین کے چِھن جانے کا۔ چالیس لوگوں کے ساتھ نکل کر وہ بلوچستان نہیں، بلکہ اپنی کھوئی طاقت بچانے نکلا تھا۔ ایسے کئی کردار ہیں جو کچھ کے یہاں ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس پر تفصیلی بحث پھر کبھی۔
قصہ مختصر کہ ایک جدید معاشرے میں نہ بنیادی بلوچ قبائلی نظام کی کوئی جگہ ہے نہ نوآبادیاتی سنڈیمن پراجیکٹ کی۔ فرسودہ روایات کی ہر سرکاری و غیر سرکاری، عسکری و غیر عسکری شکل کو ختم ہونا چاہیے۔ مشل فوکو کا ایک بہترین جملہ کہیں نظر سے گزرا تھا کہ
“In political and social analysis, we still have not cut off the head of the King.”
"سیاسی اور سماجی تجزیہ کیا جاۓ تو ہم نے تا حال بادشاہ کا سر قلم نہیں کیا ہے۔" بادشاہ، نواب، سردار، میر سب جابرانہ طاقت کی علامت ہیں۔ ان تمام طاقتوں کا سر کچلنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ بادشاہت کہنے کو تو دنیا سے کافی حد تک ختم ہو گئی مگر اس نے اپنی شکل تبدیل کر لی۔ اب مختلف شکلوں میں مسلط ہے۔ اسی طرح سردار بھی کبھی بیڈ تو کبھی گُڈ سردار کی شکل میں ہم کہیں خود پہ مسلط کر بیٹھے ہیں تو کہیں مسلّط کیا جاتا رہا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ وہ قبائلی فرسودہ نظام اور روایات جو اب تک اس نوآبادیاتی پراجیکٹ کی بقا اور پنپنے کا وسیلہ بنے ہوۓ ہیں، انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔
سو، آپشن اب کچھ نہیں بچا ہے۔ سواۓ اس کے کہ جس نام کے ساتھ بھی اب سردار جُڑا ہوا ہو، "سردار" کو نام سے مٹاؤ۔ یا پھر اُس سر کو دار پہ چڑھادو۔
واپس کریں