دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عالمی پابندیوں کے باوجود روسی معیشت معمول کے مطابق کیسے چل رہی ہے؟
No image یوکرین میں ’خصوصی فوجی آپریشن‘ شروع کرنے کے بعد روس پر تاریخی عالمی اقتصادی پابندیوں کی نتیجے میں روسی معیشت بری طرح متاثر ہوئی، لیکن ایک سال گزر جانے کے بعد بھی روسی معیشت بڑی حد تک معمول کے مطابق چل رہی ہے۔
اس پر بہت سے لوگ حیران ہیں، ناصرف وہ عالمی طاقتیں جنھوں نے روس کے خلاف پابندیوں کے تانے بانے بُنے تھے بلکہ خود روس کے سرکاری تجزیہ کار بھی حیران ہیں۔شروع شروع میں روسی ماہرین کا اندازہ بھی یہی تھا کہ عالمی پابندیوں کے چند ماہ بعد ملکی معیشت شدید مشکل کا شکار ہو جائے گی۔تاہم، مختلف ذرائع ابلاغ کی تازہ ترین خبروں کے مطابق روس سے ہائیڈروکاربن کی برآمد پر پابندیوں کے ساتھ ساتھ ملک میں مزدوروں کی عدم دستیابی اور تیل و گیس کی صنعت کو درپیش مسائل کی وجہ سے رواں برس کے آخر میں روسی معیشت کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہےلیکن اس حوالے سے کوئی حتمی بات کرنا مشکل ہے کہ ان مشکلات کی وجہ سے صدر پوتن کی حکومت کے پاؤں اکھڑ جائیں گے یا یوکرین میں جنگ ختم ہو جائے گی۔

2022 کا سال اور روسی معیشت
دنیا کے اکثر ماہرینِ معیشت کا خیال ہے کہ ان کے اندازوں کے برعکس سنہ 2022 میں روسی معیشت حیران کن طور پر ٹھیک رہی۔روس کے ایک سابق صدارتی مشیر، سرگئی گورییوو نے حال ہی میں ’فوربز‘ میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ روس میں افراطِ زر میں اضافہ نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سنہ 2022 کے ابتدائی ماہ میں عالمی سطح پر توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا تھا اور روس نے اس سے فائدہ اٹھایا۔اس کے بعد جب روس نے درآمدات پر پابندیاں لگائیں تو اس کی درآمدات تقریباً ختم ہو گئیں اور اس کے ساتھ ساتھ کئی مغربی کمپنیاں بھی روس سے نکل گئیں یا کم از کم روس سے تجارت ختم کر دی۔ان عوامل کی وجہ سے بھی روس کی معیشت کو فائدہ پہنچا اور مہنگائی پر قابو پا لیا گیا۔ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی سے منسلک ماہرِ معیشت، نتالیا زوبروچ نے بھی اپنے ایک حالیہ انٹریو میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2022 میں روسی معیشت کے خراب نہ ہونے کی تین بڑی وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ وہی ہے جو مسٹر سرگئی گورییوو نے بتائی ہے، یعنی توانائی کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافے کی وجہ سے روس کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بہت اضافہ ہو گیا اور اس کے ساتھ ساتھ روسی درآمدات میں بھی کمی ہو گئی۔نتالیا زوبروچ کے بقول اس سے روسی حکومت کو بہت فائدہ ہوا اور وہ ایک بہت اچھا سالانہ بجٹ پیش کرنے میں کامیاب رہی۔
دوسرا، روسی کاروباری کمپنیاں ممکنہ بحران سے نمٹنے میں بہت کامیاب رہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انھیں مشکل کاروباری حالات کا مقابلہ کرنے کا بہت تجربہ ہے۔نتالیا کہتی ہیں کہ ’ہم یہاں ترقی کی بات نہیں کر رہے لیکن ہم مشکل حالات میں زندہ رہنے کے استاد ہیں۔ان کا دعویٰ تھا کہ کمیونزم کے اختتام کے بعد سے روسی کمپنیاں چھ بڑے معاشی بحرانوں کا کامیابی سے مقابلہ کر چکی ہیں۔
سنہ 2022 میں روسی معیشت کے تباہ نہ ہونے کی تیسری وجہ بتاتے ہوئے نتالیا زوبروچ کا کہنا تھا کہ کچھ شعبوں میں روسی حکومت نے ’نہایت دانشمندانہ فیصلے‘ کیے۔ان فیصلوں میں ملک میں بینکاری کے نظام کو گرنے سے بچانا، چھوٹی اور درمیانے درجے کی کمپنیوں کو سرکاری ٹیکس میں عارضی چھوٹ دینا اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں درآمدات جاری رکھنے کی اجازت دینا شامل ہیں۔اقتصادی پابندیاں اور دفاعی صنعت
اگرچہ یوکرین میں جنگ کے باوجود روسی معیشت ممکنہ تباہی سے بچی رہی، لیکن مغربی ممالک کی جانب سے لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں کے اس کی دفاعی صنعت پر کچھ براہ راست اثرات ضرور مرتب ہوئے ہیں۔

فروری 2022 میں یوکرین پر بھرپور فوجی چڑھائی کے چند ہی ہفتے بعد اطلاعات آنا شروع ہو گئی تھیں کہ روس کے ٹینک بنانے والے سب سے بڑے کارخانے، یورلویگن زاوڈ کی پیداوار میں شدید کمی ہو گئی ہے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ مغربی ممالک نے ٹینکوں کے پرزے دینا بند کر دیے تھے۔ان دنوں وزیر دفاع، سرگئی شواگو نے اس فیکٹری کا دورہ کیا تھا تاکہ وہ ذاتی طور پر صورت حال کا جائزہ لے سکیں۔

ان کے دورے کے بعد آنے والی اطلاعات سے یہ اشارے ملنے لگے تھے کہ روس نے کسی طرح مسائل پر قابو پا لیا ہے کیونکہ اس کے بعد پلانٹ نے پوری طرح کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ بلکہ اب تو اس پلانٹ پر روس کو مزدوروں کی کمی کا سامنا ہے۔جدید ترین خورد بینوں سمیت مغربی ممالک سے خریدے جانے والے دیگر پرزوں کی کمی یا عدم دستیابی کی وجہ سے روس کی ہوا بازی کی صنعت کو بھی مشلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، خاص طور مصنوعی سیاروں کی پیداوار میں۔دیگر شعبے جو پابندیوں کی وجہ سے شدید متاثر ہوئے ان میں بحری جہاز بنانے کی صنعت بھی شامل ہے۔ اس صنعت کو رواں دواں رکھنے کے لیے روس کو مجبوراً چین کا رخ کرنا پڑا۔تاہم، اب بھی لگتا یہی ہے کہ عمومی طور پر روس کی دفاعی صنعت بہت زیادہ متاثر نہیں ہوئی ہے اور وہ یوکرین میں جنگ کے لیے درکار بنیادی ساز و سامان ملک میں ہی بنا رہا ہے۔

اس دوران یہ خبریں بھی آتی رہی ہیں کہ توپوں کے گولہ بارود کے لیے روس نے شمالی کوریا سے رابطہ کیا ہے جبکہ وہ میزائل وغیرہ ایران سے لے رہا ہے۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ یہ خبریں قبل ازوقت تھیں کہ سنہ 2022 کے آخر تک روس کے پاس ٹینک اور گولہ بارود ختم ہو جائے گا۔

تیل اور روسی معیشت
اگرچہ روسی تیل کی قیمت پر حد مقرر ہوئے اور یورپی ممالک کی جانب سے روسی تیل درآمد کرنے پر پابندیوں کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے، لیکن روسی معیشت پر اس کے شدید برے اثرات ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہو چکے ہیں۔انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق نومبر 2022 میں روس کی تیل سے آمدن میں شدید کمی ہو گئی، حالانکہ اس نے تیل کی پیداوار میں بہت اضافہ کر دیا تھا۔نومبر میں ہی روسی برآمدات میں شدید کمی آ گئی اور ایسا تقریباً گزشتہ دو برس میں پہلی مرتبہ ہوا۔
تیل و گیس کی آمدن میں کمی سے روسی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے، یہاں تک کہ بجٹ میں خسارے پر قابو پانے کے لیے حکومت کو قومی بچت فنڈ کا استعمال کرنا پڑا۔وزارت خزانہ کے مطابق اس اقدام سے قومی بچت کے فنڈ میں آٹھ فیصد سے زیادہ کمی ہو گئی ہے اور اگر معیشت کا یہی حال رہتا ہے تو ایک سال میں ہی یہ فنڈ ِختم ہو جائے گا۔دسمبر میں وزیر خزانہ انتون سلینوف نے خبردار کر دیا تھا کہ اگرچہ سنہ 2023 میں بجٹ میں خسارے کا تخمینہ 2 فیصد لگایا گیا ہے لیکن خسارہ اس سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ علامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔وزارت خزانہ کے اعداد وشمار کے مطابق پچھلے سال کے مقابلے میں جنوری 2023 میں روسی تیل و گیس کی آمدن میں 46 فیصد کمی آ چکی تھی، جس کی وجہ سے وفاقی بجٹ میں بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا۔

آنے والے دنوں میں کیا ہو گا؟
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جوں جوں تیل و گیس کی آمدن میں کمی ہو رہی اور روس کو اپنے مالی ذخائر استعمال کرنا پڑ رہے ہیں، آنے والے دنوں میں ملک میں شدید مہنگائی ہو سکتی ہے۔فوربز میگزین کو انٹریو میں روسی ماہر معاشیات سرگئی گوریوو کا کہنا تھا کہ جب دسمبر میں روس پر اقتصادی پابندیوں کے بعد تیل و گیس کی آمدن میں اچانک کمی ہوگئی تھی تو روسی کرنسی (روبل) کی قدر میں بھی فوراً 15 سے 20 فیصد کمی ہو گئی تھی۔’اگر (یورپی ممالک کی جانب سے پٹرولیم کی مصنوعات پر لگائی جانے والی) نئی پابندیوں کے اثرات گہرے ہو جاتے ہیں اور تیل و گیس کی آمدن میں بھی مزید کمی ہو جاتی ہے، تو روبل کی قدر مزید گِر جائے گی۔

ایک یو ٹیوب چینل کو انٹریو دیتے ہوئے تیل و گیس کی صنعت کے تجزیہ کار، میخائل کروتخن کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں روس کو جلد ہی مہنگائی کے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کے مطابق اب صورت حال اتنی خراب ہو چکی ہے کہ روس کے پاس اس ’جنگ کو جاری رکھنے کے لیے زیادہ پیسہ نہیں ہے۔‘’گزشتہ سال کے مقابلے میں جنوری 2023 میں روس کے اخراجات میں تقریباً 60 فیصد اضافہ ہو چکا تھا جبکہ آمدن میں 30 فیصد کمی ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے روس کے مالی وسائل ناکافی ہوگئے ہیں۔ آخر وہ اس خسارے کو کیسے پورا کر سکتا ہے؟‘

بشکریہ: بی بی سی
واپس کریں