دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
لارجر بنچ اور عدلیہ کے خلاف مہم کیوں ؟۔ عامر خاکوانی
No image کیا آپ جانتے ہیں کہ صرف دس ماہ پہلے سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی جانب سے قومی اسمبلی کی تحلیل والے کیس میں اسمبلی کو بحال کرنے اور تب وزیراعظم عمران خان کے خلاف زبردست فیصلہ کرنے والا بنچ کون سا تھا؟ جی اس بنچ کے سربراہ موجودہ چیف جسٹس عطا بندیال تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن (جسے آج ہٹانے کا ن لیگ مطالبہ کر رہی ہے )، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل پر مشتمل بنچ تھا اور آپ یہ تو جانتے ہی ہیں کہ عمران خان کو سب سے زیادہ سیاسی نقصان اور دھچکا اسی فیصلے سے پہنچا تھا۔ اسی بنچ نے نہ صرف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا وقت طے کیا بلکہ یہ کہا کہ اسی دن یہ عمل مکمل ہوجائے اور رات بارہ بجے تک نہ ہونے پر سپریم کورٹ کے دفاتر کھلنے کی خبر آئی تب ہی سپیکر نے ووٹنگ کرائی تھی۔ اسی بنچ کے فیصلے سے عمران خان وزارت عظمیٰ سے محروم ہوا، پی ڈی ایم حکومت میں آئی اور تب سے عمران خان بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔ جی اور یہی پانچ جج آج کل نو رکنی لارجر بنچ کا حصہ ہیں اور مزے کی بات ہے کہ ن لیگ کو انہی پانچ میں سے چار ججوں پر یہ شک اور اعتراض ہے کہ وہ عمران خان کے حامی ہیں۔ او کون لوگ ہو تسی ؟

ن لیگ کا یہ ہمیشہ سے دستور رہا ہے کہ جھوٹ بولا جائے اور رج کے بولا جائے ، اتنا جھوٹ کہ لوگ کنفیوز ہوجائیں۔ یہی آل شریف کا ہمیشہ سے ہتھیار رہا ہے۔ لاہور کے صحافی اس بات سے بخوبی واقف ہیں۔ اور ہاں ایک اور بات بھی سن لیں، صرف سوا سال پہلے یعنی فروری دو ہزار اکیس میں وزیراعظم عمران خان نے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس بھجوایا تھا جس میں استدعا کی کہ سینٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ کے بجائے اعلانیہ کرایا جائے تاکہ ہارس ٹریڈنگ نہ ہوسکے۔ اس فیصلے کو ایک پانچ رکنی فل بنچ نے مسترد کیا تھا اور الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ وہ قوانین کے مطابق سیکرٹ بیلٹنگ کرائیں۔ تب تحریک انصاف سخت مایوس ہوئی تھی، وزیراعظم عمران خان اور وزیرقانون ، فواد چودھری وغیرہ اپنی مایوسی کا اظہار کرتے رہے۔
پڑھنے والوں کو خبر ہو کہ اس بنچ کے دو جج صاحبان ریٹائر ہوچکے ہیں جبکہ باقی تین ججوں میں موجودہ چیف جسٹس عطا بندیال ، جسٹس اعجاز الاحسن (جی انہیں ہٹانے کا ن لیگ مطالبہ کر رہی ہے ) اورجسٹس یحییٰ آفریدی تھے۔ اور یہ تینوں جج موجودہ نو رکنی لارجر بنچ کا حصہ ہیں۔ اب بھی کوئی یہ کہتا ہے کہ موجودہ لارجر بنچ کے ججز اور چیف جسٹس عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن عمران خان کے حامی ہیں اور ہمیشہ انہیں ریلیف دیتے رہے، تب یہ سمجھ لیں کہ وہ سفید جھوٹ بول رہا ہے۔ وہ پٹواری مینیا کا شکار ہے، وہ ن لیگی ہے۔ وہ دانستہ حقائق چھپا رہا ہے۔

چیف جسٹس عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے پنجابی اسمبلی میں لوٹے بن جانے والے ارکان اسمبلی کے خلاف فیصلہ دیا جو کہ ہر اعتبار سے آئین کے مطابق تھا، دنیا بھر کی جمہوری ، آئینی روایات کے عین مطابق تھا اور اس فیصلے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لوٹا کریسی ختم ہوگئی، فلور کراسنگ اور فارورڈ بلاکس کا خاتمہ ہوگیا اور آئندہ کبھی کسی جماعت میں کوئی رکن اسمبلی یا گروہ پیسوں کی لالچ میں فارورڈ بلاک نہیں بنا سکے گا، وہ پارٹی پالیسی کے خلاف اعتماد کا ووٹ بھی نہیں دے سکے گا۔

اور ہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ سپریم کورٹ کے اس وقت پانچ سینئر ترین ججوں مین سے تین سینئر جج اس لارجر بنچ کا حصہ ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے گیارہ سینئر ترین ججوں میں سے آٹھ جج اس لارجر بنچ کا حصہ ہیں، نویں جج اطہر من اللہ ہیں جن کا نمبر تیرھواں بنتا ہے اور ہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ ن لیگ والوں کی ایسسمنٹ یہ ہے کہ اس نو رکنی لارجر بنچ میں سے چار جج صاحبان ان کے حق میں ووٹ ڈال سکتے ہیں جبکہ انہیں خدشہ ہے کہ پانچ فاضل جج صاحبان جن میں چیف جسٹس بھی شامل ہیں، وہ صوبائی اسمبلیوں کا نوے دنوں میں الیکشن کرانے کا حکم دے دیں گے۔
(ویسے تو یہ مفروضہ لگانا بھی غلط ہے، جب تک کوئی فاضل جج فیصلہ نہیں دے دیتا، تب تک ہم اس کے بارے میں یہ رائے پہلے سے قائم نہیں کر سکتے۔ ) ن لیگ اور ان کی حامی بارکونسلز دو ججوں کو لارجر بنچ سے ہٹانے کا مطالبہ کر رہی ہیں اور دو ججوں کو شامل کرنے کا مطالبہ ۔ یہ اس لئے کہ اپنے حساب کتاب کے بعد انہوں نے ان پانچ ججوں میں سے دو کو ٹارگٹ کیا ہے جن سے انہیں اپنے خلاف فیصلہ دینے کی توقع ہے۔ ن لیگ اور ان کے ہمنوائوں کا خیال ہے کہ دو جج نکل گئے اور ان کے (ممکنہ)حامی دو جج آگئے تو پھر لارجر بنچ کی مساوات پانچ چار کی جگہ پر تین چھ کی ہوجائے گی، چھ ججز ن لیگ کے حق میں فیصلہ دینے والے۔

یاد رہے کہ میں ذاتی طور پر اس قسم کی کیلکولیشن اور حساب کتاب کے سخت خلاف ہوں۔ یہ نہایت نامناسب ، ناجائز اور غلط ہے ۔ میرے نزدیک عدالتوں پر یہ الزامات لگانے ہی غلط ہیں۔ میرے نزدیک ججوں کے فیصلے اگر ہمارے خلاف ہوں تب بھی ہمیں انہیں تسلیم کرنا چاہیے ۔ میرے نزدیک جج کسی کے حق میں یا مخالف نہیں ہوتے۔ وہ قانونی نکات دیکھ کر میرٹ پر اپنی رائے بناتے ہیں۔ کبھی کسی کے حق میں تو کبھی مخالفت میں۔
جیسا کہ میں نے مثالوں سے ثابت کیا کہ جس بنچ اور جن ججوں پر عمران خان کے حامی ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے ، انہی ججوں نے صرف چند ماہ پہلے اتنے بڑے کیسز میں عمران خان کے خلاف فیصلے سنائے تھے، ایسے فیصلے جنہوں نے تحریک انصاف کی کمر توڑ دی، ان کی حکومت ختم کر دی ۔ عدالتوں میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ ایسا ہوتا رہے گا۔
واپس کریں