دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
توشہ خانہ اور فارن فنڈنگ کیس عمران خان کے گلے کی ہڈی
No image الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔گذشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکم دیا تھا کہ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ 30 دن کے اندر کردیا جائے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کے ترجمان کا کہنا تھا یہ فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 14 اپریل کے فیصلے کی روشنی میں کیا گیا ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے محفوظ فیصلہ جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔فیصلے میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے فارن فنڈنگ کیس کا ریکارڈ اکبر ایس بابر کو دینے سے روکنے، اکبر ایس بابر کو ممنوع فارن فنڈنگ کیس کی کارروائی سے الگ کرنے کی پی ٹی آئی کی بھی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے درخواست خارج کردی۔پاکستان تحریک انصاف نے 25 جنوری اور 31 جنوری کو دائر درخواستیں مسترد کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا جبکہ ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس نومبر 2014 سے الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ اس فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف پر پابندی عائد کر دی جائے یا عمران خان کو اس میں سزا ہوجائے اور وہ نااہل قرار دے کر جیل بھیج دیے جائیں۔ یہی وجہ ہے انہوں نے مجموعی استعفوں کاآپشن استعمال کیا ہے۔ کل عمران خان کو کسی بھی کیس میں نا اہلی یا جیل کی سزا ہو جائے تو ہر کوئی جانتا ہے کہ عمران خان سیاسی طور پر لاوارث ہے۔ پارٹی شاہ محمود قریشی اسد عمر یا پرویز خٹک کے پاس چلی جائے تو عمران خان کے پاس واپسی ناممکن ہو جائے گی۔ سلمان اور قاسم کی زندگی رجحانات تعلقات اور پوشیدہ گوشوں کے بارے میں ہماری ایجنسیاں ہم سب سے زیادہ جانتی ہوں گی اس لیے ان کا پاکستان آ کر پارٹی سنبھالنا یا والد کے لئے تحریک چلانا ناممکن ہے۔ ہو سکتا ہے خان صاحب کے ساتھ کہیں پر ان کے پارٹی معاملات سے دستبرداری کی کوئی انڈرسٹینڈنگ بھی طے پا چکی ہو۔

دوسری طرف عمران خان زیادہ سے زیادہ جلسے اور زیادہ سے زیادہ لوگ سڑکوں پر نکال کر دو قسم کے مفاد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ عوامی طاقت کے ذریعے ایک طرف حکومت کو دباؤ میں لاکر جلد انتخابات کا راستہ نکال رہا ہے تاکہ وہ جیل جانے سے بچ جائے اور ممکن ہو تو دوبارہ اچھی اکثریت کے ساتھ حکومت میں واپسی کر لے اور دوسری طرف وہ اپنے ان ممبران اسمبلی پر پریشر بڑھانا چاہتا ہے جو اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کے حق میں نہیں ہیں تاکہ ان کو قائل کرسکے کہ عوام اب بھی عمران خان کے ساتھ ہیں تبھی تو وہ کہتا رہتا ہے کہ اس دفعہ پارٹی ٹکٹ وہ اپنی مرضی کے امیدواروں کو دے گا اور ساتھ قانون اور آئین کی دھجیاں بکھیرنے والے قاسم سوری کو جلسوں میں ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے تاکہ باقی ممبران کو اس جیسا رویہ اختیار کرنے کی ترغیب ملے۔ اگرچہ اسمبلی سے استعفیٰ دے کر عمران خان اپنی رہی سہی قانونی ڈھال اور مراعات سے بھی ہاتھ دھو لے گا لیکن اسے پتہ ہے کہ یہ اس کا آخری جوا ہے جو اگر وہ جیت نہیں سکا، تو پھر اس کی بڑھتی ہوئی عمر اور طویل پاکستانی عدالتی پراسس اسے دوبارہ راج سنگھاسن پر بٹھانے کے قابل نہیں چھوڑے گا۔
بہرحال یوں لگ رہا ہے کہ توشہ خانہ کیس عمران خان کے گلے پڑے گا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہیہ بہت شرمندگی کی بات ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے توشہ خانہ کے قوانین کو استعمال کرکے مال بنایا لیکن فواد چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ گھڑی بیچ دی تو کیا ہوگا، یہ کوئی ایسی بات ہی نہیں ہے۔خبریں ہیں کہ عمران خان کو تحفے میں دی گئی گھڑی واپس سعودی عرب کے ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان کے پاس پہنچ چکی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ملک وقوم کیلئے کتنی شرمندگی کی بات ہے۔ تمام تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ اگر عمران خان کو کوئی تحفہ دیا گیا تھا تو اس کی عزت افزائی یہ تھی کہ اسے میوزیم میں رکھا جاتا جبکہ اسی مالیت کا ایک تحفہ خصوصی طور پر بنوا کر سعودی پرنس کو واپس کرنا چاہیے تھا۔ بجائے اس کے کہ اتنی بڑی مالیت کی چیز وزیراعظم صاحب صرف 10 لاکھ روپے میں خریدیں اور مارکیٹ میں جا کر بیچ دیں۔ اس کے بعد دفتر خارجہ دو لاکھ کا گھٹیا ترین ایک قالین خریدیں اور دورہ سعودی عرب کے دوران وہاں کے بادشاہ کو دیدیں۔ یہ کام جو کیا گیا، اس ملک کیلئے ذلت کا مقام ہے۔

ماضی میں پاکستان کے بعض سربراہان کو اس وجہ سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ دوست ممالک سے ملنے والے بیش قیمت تحائف کو ‘کوڑیوں کے دام’ خرید کر اپنی ملکیت میں لے آئے۔بلکہ پاکستان کے تین سابق حکمرانوں بشمول نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زرداری کو توشہ خانے سے ‘اختیارات کے ناجائز استعمال’ اور ‘غیر قانونی’ طور پر تحائف حاصل کرنے پر مقدمات کا بھی سامنا ہے اور نیب میں ان کے خلاف اس حوالے سے کیس زیر التوا ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان جب حزب اختلاف میں تھے تو وہ حکمرانوں کی جانب سے کم قیمت پر توشہ خانہ سے تحائف حاصل کرنے کو ہدف تنقید بنایا کرتے تھے۔توشہ خانے سے قیمتی کاروں سے متعلق خلاف ضابطہ خریداری نیب کو وہ خاص ریفرنس بن گیا ہے جس میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت پر ملی بھگت، گٹھ جوڑ اور پارٹنرشپ کے الزامات عائد کرتے ہوئے انھیں ایک ہی ریفرنس میں ملزم نامزد کر دیا ہے۔

نیب کے ریفرنس کے مطابق یوسف رضا گیلانی جب وزیر اعظم تھے تو انھوں نے قوانین میں نرمی پیدا کر کے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو توشہ خانے سے گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی۔اسلام آباد کی احتساب عدالت نے حکومتی توشہ خانہ سے تحفے میں ملنے والی گاڑیوں کی غیر قانونی طریقے سے خریداری کے مقدمے میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔نیب کے ریفرنس کے مطابق آصف زرداری نے بطور صدر متحدہ عرب امارات سے تحفے میں ملنے والی آرمڈ کار بی ایم ڈبلیو 750 ‘Li’ 2005، لیکس جیپ 2007 اور لیبیا سے تحفے ملنے والی بی ایم ڈبلیو 760 Li 2008 توشہ خانہ سے خریدی ہیں۔نیب نے دعویٰ کیا ہے کہ آصف زرداری نے ان قیمتی گاڑیوں کی قیمت منی لانڈرنگ والے جعلی بینک اکاؤنٹس سے ادا کی ہے۔ ریفرنس میں ان بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں جن سے مبینہ طور پر آصف زرداری نے ادائیگیاں کی ہیں۔ ریفرنس کے مطابق آصف زرداری نے گاڑیاں توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے خود استعمال کر رہے ہیں، انھوں نے عوامی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔تاہم سوال یہ ہے کہ اگر ماضی میں نواز شریف اور آصف علی زرداری پر توشہ خانے کی اشیاء کے استعمال اور بیچنے پر ریفرنسز بنائے گئے تھے تو عمران خان کو کیسے چھوڑٖ دیا جائے گا؟ اب یہ دونوں کیسز توشہ خانہ اور فارن فنڈنگ مل کر تحریک انصاف کے لیے بڑے خطرے کی گھنٹی ہیں۔۔
بشکریہ: شفقنا اردو

واپس کریں