دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
انگریزوں کے مخبر سجادہ نشین اور چوہدری
No image کون کون انگریزوں کے مخبر تھے؟
قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر ڈاکٹر تراب الحسن صاحب نے ایک تھیسز لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے جس کا عنوان ہے۔
"Punjab and the War of Independence 1857"
اس تھیسز میں انہوں نے جنگ آزادی کے حالات پر روشنی ڈالی ہے۔ جس کے مطابق اس جنگ میں جن خاندانوں نے جنگ آزادی کے مجاہدین کے خلاف انگریز کی مدد کی، مجاہدین کو گرفتار کروایا اور قتل کیا اور کروایا ان کو انگریز نے بڑی بڑی جاگیریں مال و دولت اور خطابات سے نوازا ان کے لیئے انگریز سرکار نے وظائف جاری کیئے ۔
اس تھیسز کے مطابق تمام خاندان وہ ہیں جو انگریز کے وفادار تھے اور اس وفاداری کے بدلے انگریز کی نوازشات سے فیضیاب ہوئے۔ یہ خاندان آج بھی جاگیردار ہیں اور آج بھی اپنے انگریز آقا کے جانے کے بعد ہر حکومت میں شامل ہوتے ہیں۔
"Proceeding of the Punjab Political department no 47, june 1858"
کے مطابق دربار حضرت بہاء الدین زکریا کے سجادہ نشین شاہ محمود قریشی کے اجداد نے مجاہدین آزادی کے خلاف انگریز کا ساتھ دیا۔ انہیں ایک رسالہ کے لیئے 30 آدمی اور گھوڑے فراہم کیے۔ اس کے علاوہ 25 آدمی لے کر خود بھی جنگ میں شامل ہوئے۔ انگریزوں کے سامان کی حفاظت پر مامور رہے۔ ان کی خدمات کے عوض انہیں تین ہزار روپے کا تحفہ دیا گیا۔ دربار کے لیے 1750 روپے کی ایک قیمتی جاگیر اور ایک باغ دیا گیا جس کی اس وقت سالانہ آمدن 150 روپے تھی۔
چوہدری نثار علی خان کے اجداد چوہدری شیر خان کا ہے۔ ان کی مخبری پر کئی مجاہدین کو گرفتار کرکے قتل کیا گیا۔ انعام کے طور پر چوہدری شیر خان کو ریونیو اکٹھا کرنے کا اختیار دیا گیا اور جب سب لوگوں سے اسلحہ واپس لے لیا گیا تو انہیں پندرہ بندوقیں رکھنے کی اجازت اور 500 روپے خلعت دی گئی۔
"Gujranwala Guzts 1935-36 Govt of Punjab"
کے مطابق حامد ناصر چھٹہ کے بزرگوں میں سے خدا بخش چھٹہ نے جنگ آزادی میں انگریزوں کا ساتھ دیا۔ وہ اس وقت جنرل نکلسن کی فوج میں تھے۔ قصور کے خیر الدین خان جو خورشید قصوری کے خاندان سے تھے نے انگریزوں کے لیے 100 آدمیوں کا دستہ تیار کیا اور خود بھتیجوں کے ساتھ جنگ میں شامل ہوا۔ انگریزوں نے اسے 2500 روپے سالانہ کی جاگیر اور ہزار روپے سالانہ پینشن دی۔
احمد خان کھرل کی مقبولیت بڑھی تو انگریزوں کو ڈر پیدا ہوا کہ ان کے مقامی سپاہی جلد یا بدیر احمد کھرل سے جا ملیں گے، اس لیئے 10 جون 1857ء کو ملتان چھاؤنی میں پلاٹون نمبر 69 کو بغاوت کے شعبہ میں نہتا کیا گیا اور پلاٹون کمانڈر کو مع دس سپاہیوں کے توپ کے آگے رکھ کر اڑا دیا گیا، آخر جون میں بقیہ نہتے پلاٹون کو شعبہ ہوا کہ انہیں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں فارغ کیا جائے گا اور تہہ تیغ کردیا جائے گا۔ سپاہیوں نے بغاوت کردی تقریباً بارہ سو سپاہیوں نے علم بغاوت بلند کیا۔
انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے والے مجاہدین کو شہر اور چھاؤنی کے درمیان پل شوالہ پر دربار بہاء الدین زکریا کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی نے انگریزی فوج کی قیادت میں اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیرے میں لے لیا اور تین سو کے قریب نہتے مجاہدین کو شہید کردیا۔
یہ شاہ محمود قریشی ہمارے موجودہ وزیر مخدوم شاہ محمود قریشی کے لکڑ دادا تھے۔ ان کا نام ان ہی کے نام پر رکھا گیا کچھ باغی دریائے چناب کے کنارے شہر سے باہر نکل رہے تھے کہ انہوں نے دربار شیر شاہ کے سجادہ نشین مخدوم شاہ علی محمد نے اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیرے میں لے لیا اور ان کا قتل عام کیا۔ مجاہدین نے اس قتل عام سے بچنے کے لیئے دریا میں چھلانگ لگادی کچھ ڈوب کر جاں بحق ہوگئے اور کچھ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ پار پہنچ جانے والوں کو سید سلطان قتال بخاری کے سجادہ نشین دیوان آف جلالپور پیروالہ نے اپنے مریدوں کی مدد سے شہید کردیا۔
۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کو 1857ء کی جنگ آزادی کچلنے میں انگریزوں کی مدد کے عوض مبلغ تین ہزار روپے نود جاگیر سالانہ معاوضہ مبلغ ایک ہزار سات سو اسی روپے آٹھ چاہات جن کی سالانہ آمدنی ساڑھے پانچ سو روپے تھی بطور معافی دوام عطا ہوئی مزید یہ کہ 1860ء میں وائسرائے ہند نے بیگی والا باغ عطا کیا مخدوم شاہ علی محمد کو دریائے چناب کے کنارے مجاہدین کو شہید کرنے کے معاوضہ کے طور پر وسیع جاگیر عطا کی گئی۔
یہی تو ہیں ہمارے ملک چلانے والے غدار حکمران ۔۔۔۔۔
کل کے مخبر ... اور آج کے رہبر
نوٹ : یہ تصویر شاہ محمود قریشی کے دادا کی ہے جن کا نام بھی شاہ محمود قریشی ہی تھا۔
بقلم:طاہر سواتی
واپس کریں