دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
’بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں۔ امریکہ کی نظر ہے۔
No image امریکی وزیر خارجہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی سے متعلق جب بیان دیا، تو بھارتی وزیر خارجہ اور دفاع ان کے پہلو میں کھڑے تھے۔ تاہم بھارتی رہنماؤں نے اس پر اپنے رد عمل کا اظہار تک نہیں کیا۔
امریکہ نے پیر کے روز کہا کہ واشنگٹن حکومت بھارت میں ہونے والی ’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافے‘ کی مسلسل نگرانی کر رہی ہے۔ بعض سرکردہ امریکی شخصیات بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز نہ اٹھانے کے لیے امریکی حکومت پر نکتہ چینی کرتی رہی ہیں۔
امریکہ نے انسانی حقوق کے حوالے سے دو بھارتی وزرا کی موجودگی میں، جس طرح کا بیان دیا، وہ ایک طرح سے غیر معمولی بات ہے اور اسے واشنگٹن کی جانب سے نئی دہلی کے لیے براہ راست سرزنش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
امریکہ نے کیا کہا؟
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے واشنگٹن میں بھارتی وزراء کے ساتھ ہونے والی ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ امریکہ بھارت میں کچھ عہدیداروں کے ذریعے کی جانے والی، ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘‘ پر اپنی نظر رکھے ہوئے ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’’ہم جمہوری اقدار اور (انسانی حقوق کی) جیسی مشترکہ اقدار پر اپنے بھارتی شراکت داروں کے ساتھ باقاعدگی سے بات چیت کرتے رہتے ہیں اور اسی مقصد کے لیے ہم بھارت میں ہونے والی ایسی بعض حالیہ پیش رفتوں کی نگرانی کر رہے ہیں، جن میں بعض حکومتی، پولیس اور جیل حکام کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ بھی شامل ہے۔‘‘
تاہم انہوں نے کہا کہ ان اہم مسائل کے علاوہ بھی بہت سے ایسے کلیدی پہلو ہیں، جن پر بھارت کے ساتھ بات چيت ہوئی ہے اور ان پر تعاون کے لیے توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کی رکن الہان عمر نے چند روز قبل ہی انسانی حقوق کے حوالے سے نریندر مودی کی حکومت پر تنقید کرنے میں امریکی حکومت کی مبینہ ہچکچاہٹ پر سوال اٹھا یا تھا، جس کے بعد امریکی وزیر خارجہ کا یہ بیان سامنے آیا ہے۔
عمر الہان کا تعلق حکمراں ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ انہوں نے بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے مودی حکومت کی پالیسیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا، ’’اس سے پہلے کہ ہم انہیں امن میں اپنا شراکت دار سمجھنا چھوڑ دیں، آخر مودی کو بھارت کی مسلم آبادی کے ساتھ، کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‘‘
واشنگٹن کی مشترکہ پریس کانفرنس میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن، ان کے بھارتی ہم منصب راج ناتھ سنگھ اور بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر بھی موجود تھے۔ بھارتی وفد نے انٹونی بلنکن کے بیان کے بعد بات کی تاہم انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی بھی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔
بھارت اور امریکہ کے درمیان وزارتی سطح کے 'ٹو پلس ٹو ڈائیلاگ‘ کا یہ چوتھا مرحلہ ہے، جس کے لیے بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر واشنگٹن میں ہیں۔ ان مذاکرات کے بعد ہی اس مشترکہ پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گيا تھا۔
ان مذاکرات سے پہلے پیر کے روز ہی امریکی صدر جو بائیڈن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان ایک آن لائن میٹنگ ہوئی تھی، جس میں دونوں رہنماؤں نے یوکرین پر روسی حملے سمیت کئی اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔مسلمانوں کے خلاف بڑھتی نفرت
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت بی جے پی، 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی، جم کر سماج کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے اور مذہبی منافرت کو فروغ دینے کا کام کرتی رہی ہے۔
مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی دائیں بازو کے ہندو گروپوں نے اقلیتوں پر اپنے حملے تیز کر دیے ہیں اور آئے دن مساجد اور دیگر املاک کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
کئی ریاستیں تبدیلی مذہب کی مخالفت میں متنازعہ قوانین منظور کر چکی ہیں اور کئی اس پر غور کر رہی ہیں۔ حالانکہ یہ اقدام آئینی طور پر عقیدے کی آزادی کو تحفظ فراہم کرنے والے حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
مودی حکومت نے شہریت سے متعلق ایک نیا قانون بھی منظور کیا ہے، جس میں مسلمانوں کے علاوہ، پڑوسی ممالک سے آنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت دینے کا وعدہ کیا گيا ہے۔
سن 2019 میں دوبارہ انتخاب میں کامیابی کے فوراً بعد مودی کی حکومت نے مسلم اکثریتی خطے کشمیر کو حاصل تمام خصوصی آئینی اختیارات ختم کرتے ہوئے اس کا ریاستی درجہ تک ختم کر دیا تھا۔ اس وقت سے کشمیر سکیورٹی کے سخت حصار میں ہے، جس کے سینکڑوں سیاسی رہنما اور ہزاروں کارکن بھارت کی مختلف جیلوں میں اب بھی قید ہیں۔
حال ہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ایک ریاست میں تو حجاب پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
بشکریہ۔ ڈی ڈبلیو اردو
واپس کریں