دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عمران خان اور نواز شریف: دونوں کی وہ مماثلت جو مٹ نہیں سکتی!
No image عمران خان اور نواز شریف پاکستانی سیاست کے دو ایسے سیاسی کردار ہیں جن کے درمیان بدترین سیاسی رقابت بھی ان دونوں کے سیاسی کریئر میں پائی جانے والی مماثلت کو دھندلا نہیں سکی۔

سیاسی بلندی کی انتہاؤں کو چھونے والے ان دونوں سیاستدانوں کی سیاست کا آغاز پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے مرہون منت قرار دیا جاتا ہے اور حالیہ دنوں کے واقعات کے بعد نواز شریف کی طرح عمران خان کو اقتدار کے ایوانوں میں رہتے ہوئے پیش آنے والی مبینہ مشکلات کی ذمہ دار بھی بالآخر ملکی اسٹیبلشمنٹ ہی کہلوائے گئی۔

عمران حکومت کی تبدیلی سے چند دن پہلے ہی سیاسی تجزیہ کار بے چینی سے منتظر تھے کہ اسلام آباد میں جاری دو معاملات پر کیا پیشرفت ہوتی ہے۔

ایک معاملہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے سے متعلق ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس پر ہونے والی سماعت تھی۔

جبکہ دوسرا معاملہ یہ تھا کہ کیا فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی طرف سے وزیراعظم کے ان الزامات پر کوئی وضاحت جاری ہوتی ہے یا نہیں جن میں عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی شکل میں عالمی سازش ہوئی ہے اور عمران خان کے مطابق فوجی قیادت نے ان کے اس دعوے کی تائید و توثیق کی۔

فوج کی پوزیشن کی وضاحت سے متعلق باقاعدہ بیان تو جاری نہیں ہوا تاہم پاکستانی نیوز چینلز پر برطانوی خبررساں ادارے روئٹرز کی اس خبر کا خوب چرچا رہا جس کے مطابق فوجی قیادت نے وزیراعظم کے اس مؤقف کو درست تسلیم نہیں کیا کہ اپوزیشن کسی عالمی سازش کا حصہ بنی۔

رؤئٹرز کی خبر میں خاص بات یہ تھی کہ نیوز ایجنسی نے پاکستانی فوج اور انٹیلیجنس کے اعلیٰ حکام کا اپنی رپورٹ میں حوالہ دیا تھا۔

اس مرتبہ بھی ایک سینیئر فوجی افسر کا حوالہ دیا گیا جس کا کہنا تھا کہ فوجی قیادت نے وزیراعظم عمران خان کو اپنے اس مؤقف سے آگاہ کیا کہ ان کے خیال میں اپوزیشن غیر ملکی سازش میں شامل نہیں۔

روئٹرز کی خبر عمران خان کے امریکی محکمہ خارجہ اور اپوزیشن کو مل کر اپنی حکومت کے خلاف سازش میں ملوث کرنے کی مہم کے لیے پہلا بڑا جھٹکا ثابت ہوئی۔

اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ پر اپنی حکومت کو دھمکی دینے اور اپوزیشن کی ملی بھگت سے انھیں اقتدار سے نکال باہر کرنے کی سازش کے عمران خان کے الزامات لگانے کے چند دن بعد کابینہ کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں عمران خان کے لگائے گئے الزامات کا جائزہ لیا گیا۔

بعد ازاں حکومت کی جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے پاکستان میں ’غیر ملکی مداخلت‘ کی مذمت کی۔
جمعرات کی شام سپریم کورٹ کے فیصلے نے عمران خان کی اس غیر ملکی سازش کی بنیاد پر چلائی جانے والی مہم کو ایک زبردست دھچکا پہنچایا، جس میں ڈپٹی سپیکر کی طرف سے دی جانے والی رولنگ کو خلافِ آئین اور کالعدم قرار دیا گیا۔

یہ رولنگ ان الزامات کی بنیاد پر دی گئی تھی کہ امریکی محکمہ خارجہ کے اکسانے پر اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی۔

عمران خان نے عدالتی فیصلے کے بعد اپنے خطاب میں سپریم کورٹ کی جانب سے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے کو خاطر میں نہ لانے پر اپنی مایوس کا اظہار کرتے کہا کہ ’عدالت کم از کم اس مراسلے کو دیکھ تو لیتی کہ اس میں ہے کیا۔‘

سنہ 2014 میں اپنے سیاسی حریف نوازشریف کے خلاف احتجاجی تحریک سے کچھ عرصہ پہلے تک اعلیٰ عدلیہ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں یہ عمومی تاثر پایا جاتا تھا کہ ان میں عمران خان کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے۔

ملک کے بعض سیاسی پنڈت تو یہاں تک کہتے ہیں کہ گذشتہ چند سال کے دوران عدالتی فیصلے اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیاں عمران خان کی حامی و مدد گار رہیں تاکہ وہ اپنے سیاسی اہداف کو حاصل کرنے میں آگے بڑھ سکیں تاہم گذشتہ ہفتے کے واقعات نے عمران خان کے مقدر کو بدل دیا ہے۔

حکومت کی تبدیلی کے لیے مبینہ غیر ملکی سازش کے بارے میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے بعد سے عمران خان کے ستارے ڈرامائی انداز میں گردش میں آئے ہیں۔

سینیئر فوجی حکام نے میڈیا سے گفتگو میں خود کو اور اپنے ادارے کو عمران خان کی طرف سے اپوزیشن کے خلاف چلائی جانے والی شدید نفرت پر مبنی مہم سے دور رکھا اور سپریم کورٹ نے عمران خان کے اس بیانیے اور مقدمے کو پذیرائی نہیں بخشی۔

عمران خان نے پاکستانیوں کو سکھایا کہ کرکٹ کیسے کھیلنی ہے۔ عمران خان کرکٹ کے کھلاڑیوں کو نصیحت کرتے تھے کہ ’جب آپ دفاعی انداز میں کھیلتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ میچ برابر ہو جائے تو امکان ہے کہ آپ ہار جائیں گے لیکن جب آپ میچ جیتنے کے لیے جارحانہ انداز میں کھیلتے ہیں تو اس صورت میں آپ ہار بھی جائیں تو آپ بہترین کارکردگی کی اپنی صلاحیت حاصل کریں گے۔‘

اسی فلسفے پر چلتے ہوئے انھوں نے انڈیا کو اس کے ہوم گراﺅنڈ پر شکست دی اور سنہ 1992 کا ورلڈ کپ جیتا۔ دونوں مواقع پر ان کا لاہور میں ہیرو جیسا استقبال ہوا۔

اس شاندار اور والہانہ خیرمقدم کی مقبول سیاستدان بھی حسرت ہی کر سکتے تھے۔ سنہ 1992 میں ورلڈ کپ کی جیت کے بعد واپسی پر ہزاروں افراد ان کے استقبال کے لیے لاہور کی سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

ان دنوں 11 سال کی فوجی حکومت کے خاتمے پر ملک میں پارلیمانی جمہوریت کی بحالی کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین اقتدار میں آئے تھے۔ ان سیاسی رہنماﺅں کو ڈر تھا کہ اس مقبولیت کے ساتھ عمران خان کہیں سیاسی نظام پر ہی غلبہ نہ پالیں اور آنے والے برسوں میں اپنی اس مقبولیت کے ذریعے انھوں نے سیاسی نظام پر غلبہ پا ہی لیا۔

جدید فکرونظر کے حامی سیاسی تبصرہ نگاروں کے بقول اس کامیابی کو انھوں نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے حاصل کیا لیکن سیاسی نظام پر غلبہ پانے کے بعد غالباً وہ کچھ زیادہ ہی جارحیت پر اتر آئے اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی کرکٹ میچ کی طرز پر جارحانہ انداز میں کھیلتے ہوئے نازک سیاسی توازن ہی بگاڑنا شروع کر دیا۔

سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیراعظم عمران خان کے درمیان مماثلتوں کا جائزہ یہ بھی بتاتا ہے کہ دونوں کا پنجابی مڈل کلاس پر مشتمل وسطی پنجاب میں ووٹ بینک ہے۔

یہ ووٹ ہی ان دونوں کو اقتدار میں لانے کا بنیادی عامل ہے۔ دونوں میں یہ بھی قدر مشترک ہے کہ ان کو لانے والے سرپرستوں اور مربیوں نے ہی ان کو داخل دفتر بھی کیا اور دونوں ہی کے اقتدار کے خاتمے سے قبل انھی طاقتوں سے کشمکش بھی دکھائی دی۔

نواز شریف اور اسٹیلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کی دھوپ چھاؤں
بہت سے سیاسی تجزیہ کار عام طور پر اس امر پر حیران ہیں کہ نوازشریف کا سیاسی سفر بہت سارے نشیب و فراز کا مرکب ہے جس میں وزیراعظم ہاﺅس سے جدہ جلاوطنی یا روانگی سے پاکستان اور وزیراعظم ہاﺅس واپسی اور ایک بار پھر جیل یاترا، مالی کرپشن کے مقدمے میں سزا تک کے مراحل آئے ہیں۔

نوازشریف کے سیاسی سفر میں ایک مستقل پہلو فوج کے ساتھ ان کے تعلقات ہیں جو قربت اور رقابت کی انتہاﺅں کو چھوتے رہے۔

پاکستان میں سول ملٹری تعلقات سے متعلق بہت سارے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ نوازشریف نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز فوج کی حمایت سے کیا لیکن بعد میں ان کا انداز سیاست ایک خود مختار سیاستدان کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔

نوازشریف تین بار پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ان کا سیاسی سفر پاکستان کی طاقتور فوج اور انٹیلیجنس کے نظام کی سرپرستی میں سنہ 1980 میں شروع ہوا تھا جب وہ اس فوجی نظام کے منظور نظر کے طور پر عوام کے سامنے لائے گئے۔

ان کی سیاسی زندگی میں آنے والے غیر معمولی پیچ و خم کے سبب وہ ایک مقبول عام سیاسی رہنما کے طور پر ابھرتے گئے جنھوں نے ملک میں حقیقی جمہوریت کے قیام کا مطالبہ شروع کیا اور اصرار کرنا شروع کیا کہ ہر قسم کی بیرونی مداخلت سے پاک سیاسی نظام وجود میں آئے۔

12 اکتوبر 1999 کی فوجی بغاوت اور اس کے نتیجے میں فوجی قانونی کارروائی کے سامنے اور جنرل مشرف کی طرف سے اپنی حکومت کا تختہ الٹائے جانے سے کہیں پہلے سے نوازشریف کی پاکستانی فوج اور فوج کے حمایت یافتہ صدور سے ایک سے زیادہ مواقع پر مڈ بھیڑ اور چپقلش ہو چکی تھی۔

ہر مرتبہ نہ صرف یہ کہ وہ بالآخر بچ گئے بلکہ ان کی سیاسی قوت میں مزید اضافہ ہوا۔ سیاسی قوت میں اس اضافے کی وجہ ان کا فوجی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ بن گیا۔

پاکستانی سیاست پر تبصرہ نگاری کرنے والوں کا کہنا ہے کہ سنہ 1993 سے نوازشریف کا حقیقی سیاسی اور مقبول عام رہنما کا تشخص بننا شروع ہوا۔

یہ وہ وقت تھا جب انھوں نے فوج کے حمایت یافتہ صدر غلام اسحاق خان کو بطور وزیر اعظم چیلنج کیا اور آئین میں ترمیم کے ذریعے صدر کے اختیارات کو کم کرنے کی کوشش کی۔
جوابی ردعمل میں صدر غلام اسحاق خان نے نوازشریف کی حکومت ختم کر دی اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں لیکن اس کے نتیجے میں نواز شریف کی سیاسی قوت میں اضافہ ہو گیا۔ انھوں نے ایک طاقتور صدر کے سامنے سرکشی کی تھی جو اس وقت پاکستانی سیاست میں ایک اجنبی سی بات تھی۔

یہ بھی نوازشریف اور عمران خان کی سیاست میں ایک اور قدر مشترک ہے کہ سنہ 1980 اور 1990 کے اوائل میں جب وہ فوج اور خفیہ اداروں کے زیرِسایہ سیاست کر رہے تھے تو ان کے سیاسی بیانیے کی بنیاد بے نظیر بھٹو کو پاکستان کے قومی مفادات کے خلاف کام کرنے کے الزامات کے تحت نشانہ بنانے پر تھی۔

کئی مواقع پر انھوں نے یہاں تک الزام لگایا کہ بے نظیر بھٹو انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف کام کر رہی ہیں۔

عمران خان نے بھی یہی حربہ سنہ 2018 میں نوازشریف کے خلاف استعمال کیا۔ سنہ 2018 کے عام انتخابات میں اپنی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے یہ کارڈ خوب کھیلا۔

جب سپریم کورٹ نے نوازشریف کو اقتدار سے نکال باہر کرنے کا فیصلہ دیا اور وہ سزا یافتہ قرار دے دیے گئے تو مشکوک لنکس والے سوشل میڈیا کے سرگرم افراد نے انھیں ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے والے شخص کے طور پر پیش کرنا شروع کیا اور ان پر اِن الزامات کی بھرمار کر دی گئی کہ وہ ’را‘ (انڈین خفیہ ادارے) کی ایما پر قومی مفادات کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔

ان دنوں سوشل میڈیا پر اس خبر کا خوب چرچا رہا کہ پاکستانی خفیہ اداروں نے نوازشریف کی شوگر مل سے ’را‘ کے دو ایجنٹوں کو گرفتار کر لیا۔

سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی ان اطلاعات نے عمران خان کے اِن الزامات کی آگ پر تیل کا کام کیا جو نوازشریف پر الزام لگا رہے تھے کہ انھوں نے نیپال میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی سے خفیہ ملاقات کی ہے۔

نوازشریف کی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) پر ختم نبوت کے مسئلے پر سودے بازی کا مجرم ہونے کا سنگین الزام لگا دیا گیا۔

اس الزام نے وسطی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو 14 نشستوں سے محروم کر دیا۔ انسداد دہشت گردی اور انتہا پسندی سے متعلق امور کے ممتاز ماہر محمد عامر رانا کے مطابق ’پاکستان مسلم لیگ (ن) تحریک لبیک کی وجہ سے وسطی پنجاب کی 14 نشستوں سے محروم ہو گئی جبکہ عمران خان نے خود کو مذہبی مفادات کے چیمپیئن اور امین کے طور پر پیش کرنا شروع کیا۔‘

’یہ مکافات عمل کہا جا سکتا ہے کہ سنہ 1980 اور 1990 کے دوران دائیں بازو کے میڈیا نے جس طرح بے نظیر بھٹو کو ’مذہب بیزار‘ کے طور پر پیش کیا تھا وہی کچھ نوازشریف کے ساتھ ہوا‘نوازشریف کی بتدریج اٹھان اور عمران خان کا اچانک ٹیک آف
نوازشریف کے برعکس عمران خان کا ابھرنا بتدریج نہیں تھا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں خبروں کی بھرمار رہی کہ طاقتور خفیہ ادارے (کچھ خبروں کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا) نے عمران خان کو سیاسی گوشہ نشینی سے نکالا اور سنہ 2011 میں مینار پاکستان لاہور میں خفیہ اداروں کی فعال مدد اور تعاون سے پہلا بھرپور اور کامیاب سیاسی شو کیا۔

سنہ 2013 کے انتخابات میں جس شخص کی چند نشتیں تھیں وہ سنہ 2018 کے عام انتخابات میں سب سے بڑی پارلیمانی جماعت کا لیڈر بن کر سامنے آیا۔ اس طرح عمران خان وزیراعظم بن گئے۔

سنہ 1990 میں نواز شریف پہلی بار جب وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئے تھے تو اس وقت وہ دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد یعنی اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کی قیادت کر رہے تھے جس نے بے نظیر بھٹو اور ان کی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کو عام انتخابات میں شکست دی تھی۔

اب قائل کر لینے والے دستاوزیری شواہد دستیاب ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد آئی ایس آئی نے بنایا تھا تاکہ مقبول عام بے نظیر بھٹو کا مقابلہ کیا جا سکے جنھیں ملک میں سب سے زیادہ مقبول سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔

سنہ 1990 میں جس طرح ایک اتحاد کے ذریعے نوازشریف کو اقتدار میں لایا گیا، اسی طرح لیفٹیننٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا نے سنہ 2013 کے عام انتخابات سے پہلے پنجاب کے ان سیاستدانوں کو پاکستان تحریک انصاف میں شامل کرایا جو اپنے حلقے کو جیتنے کی روایتی شہرت اور صلاحیت رکھتے تھے۔
عمران اور نواز۔ ایک بڑا فرق!
البتہ ایک بڑا فرق دونوں کے سیاسی سفر میں یہ ہے کہ نوازشریف نے فوجی ہائی کمان کے غیض وغضب کا سامنا ایک سے زیادہ مرتبہ کیا۔ اس کی غالباً ایک وجہ نوازشریف اور فوج کی اعلیٰ کمان کے درمیان براہ راست مخاصمت ہو۔

نوازشریف کے پہلے دور میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ سے ان کا ٹاکرا ہوا۔ بعد میں سنہ 1999 میں اپنے دوسرے دور حکومت میں جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں آرمی ہائی کمان سے ٹکرائے۔

عمران خان نے اب تک ہوشیاری کے ساتھ فوج کے ساتھ براہ راست عوامی سطح پر ٹکرانے سے گریز کیا۔

اگرچہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر تعینات کرنے میں انھوں نے پس و پیش کی جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تنازع کو ذرائع ابلاغ میں خوب اچھالا گیا۔

ستم ظریفی کہیں یا کچھ اور لیکن اب مقدر عمران خان کو مجبور کر رہا ہے کہ عمران خان پھر سے احتجاج کے رویے کو اختیار کریں یا پھر اپوزیشن کے بینچوں پر جا کر بیٹھ جائیں اور 2023 کی موجودہ اسمبلیوں کی مدت تک حزب مخالف کی نشستوں پر ہی بیٹھے رہیں۔

وقت ہی بتائے گا کہ عمران خان کیا راہ اپناتے ہیں یا پھر وہ نوازشریف فیملی کے احتساب کے لیے دباﺅ جاری رکھتے ہیں۔

یہ امکان بھی موجود ہے کہ نئی حکومت آرٹیکل 6 کے تحت عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کرتی ہے جیسا کہ ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پہلے ہی اشارہ دے چکے ہیں۔

ایک اہم پہلو فارن فنڈنگ کیس کا بھی ہے جس میں الیکشن کمشن کی طرف سے فیصلے کا انتظار ہے جو عمران خان کے لیے ایک اور سرپرائز سے کم نہیں ہو گا۔

بشکریہ بی بی سی
واپس کریں