دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عمران خان کے بیانیے سے پاکستان کے امریکہ سے تعلقات کیسے متاثر ہوں گے؟
No image گذشتہ ماہ پاکستان کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے جب سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پارلیمان میں جمع کروائی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ عمران خان اس تحریک کی بنیاد کسے قرار دیں گے۔

11 فروری کو متحدہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا تھا اور آٹھ مارچ کو یہ تحریک قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی گئی جس پر 86 اراکین قومی اسمبلی کے دستخط موجود تھے۔

یہ تحریک جمع ہونے سے صرف دو روز قبل سابق وزیراعظم عمران خان نے پنجاب کے ضلع میلسی میں ایک جلسے سے خطاب میں کہا تھا کہ ’کیا اپوزیشن نے یہ سوچا ہے کہ اگر تحریک ناکام ہو گئی تو میں اُن کے ساتھ کیا کروں گا؟‘

تاہم سابق وزیر اعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران اپنی جیب سے ایک مبینہ خط نکالا اور اُسے لہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ متحدہ اپوزیشن ایک ’بیرونی سازش‘ کے ذریعے اُن کی حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ خط اس مبینہ سازش کا ثبوت ہے۔

اس جلسے کے بعد انھوں نے متعدد مواقع پر بارہا یہ دعویٰ کیا کہ اس مراسلے کے مطابق ایک امریکی سفارتکار نے پاکستانی سفیر سے ایک سرکاری ملاقات کے دوران مبینہ طور پر یہ کہا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے لائی گئی تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی تو پاکستان کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

عمران خان کہتے ہیں کہ سات مارچ کو ہونے والی اِس ملاقات کے وقت تک تحریک عدم اعتماد کا کوئی وجود نہیں تھا۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اپوزیشن کئی ہفتے پہلے یہ اعلان کر چکی تھی کہ عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو ہٹایا جائے گا اور اس بات کا ذکر خود عمران خان کی تقاریر میں بھی ملتا ہے۔

عمران خان کا اصرار ہے کہ امریکی دفتر خارجہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو اس امریکی سازش کا حصہ ہیں جس کا مقصد ان کی حکومت کو ہٹانا تھا

اس سفارتی مراسلے کا متن کیا ہے، یہ ماسوائے وزیراعظم، وفاقی کابینہ اور بعض اعلٰی سرکاری افسران کے اور کوئی نہیں جانتا۔ تاہم ماہرین یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ خط اور پھر عوامی سطح پر غیر سفارتی زبان استعمال کرنے کا امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پر ’دیرپا اور منفی اثر‘ پڑے گا۔

پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات پہلے بھی کچھ بہت اچھے نہیں ہیں تو اس معاملے کے بعد ان میں مزید کیا فرق پڑے گا؟ کیا سفارتی مراسلے کو اس انداز میں استعمال کرنے سے دیگر ممالک کے سفارتکار پاکستان سے بات کرتے ہوئے محتاط ہوں گے؟ اور یہ بھی کہ حزب اختلاف کی نئی حکومت اس معاملے کے بعد کس قسم کے دباؤ کا شکار ہو گی؟

یہ اور ان جیسے دیگر سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے لیے بی بی سی نے بعض تجزیہ کاروں اور بین الاقوامی اُمور کے ماہرین سے بات کی۔

’خط کا وقت اس کو اہم کر رہا ہے‘
قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات سے منسلک ڈاکٹر قندیل عباس کہتے ہیں کہ ’پہلے پاکستانی وزیراعظم سے آج کے وزیر اعظم تک امریکہ کا پاکستان کی سیاست میں ملوث ہونا ہمیشہ زیر بحث رہا ہے اور آج بھی یہی ہو رہا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے جس سفارتی کیبل کا ذکر کیا جا رہا ہے، وہ بظاہر ’ایک معمول کی کیبل ہے جو پاکستان میں موجود غیر ملکی سفارتکار اپنے ممالک کو بھیجتے رہتے ہیں اور ہمارے سفارتکاروں کے ذریعے دوسرے ممالک سے پاکستان بھی آتی ہیں۔ ماضی میں اس سے زیادہ خطرناک کیبلز اور مراسلے آتے رہے ہیں۔ لیکن اس بار اس خط کا وقت اس کو اہم بنا رہا ہے۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ ’اب امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے میں وقت لگے گا۔ میرا خیال ہے کہ اس کیبل میں فوری کوئی حقیقت یا خطرے اور پریشانی کی بات ہوتی تو سپریم کورٹ اس کو ضرور سنجیدہ لیتی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سفارتی خط اتنا اچھالا نہ جاتا مگر اس سے قبل بعض امریکی شخصیات کی پاکستان کی اہم شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے کہ شاید امریکہ پہلے سے ہی اس ملوث تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک اس کیبل کا متن سامنے نہیں آتا اس پر رائے دینا ہی کافی مشکل ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ مستقبل میں ایک طویل عرصے تک اس خط اور عمران خان کے امریکہ مخالف بیانیے کا اثر پاکستان پر ہو گا۔

’ہماری بہت سے مذہبی اور سیاسی قوتیں ہیں جو امریکہ مخالف ہیں، اور گذشتہ چند ہفتوں میں ان گروپس اور افراد نے بھی عمران خان کے امریکہ مخالف بیانیے کی حمایت کی ہے جو عام طور پر اُن سے سخت اختلاف رکھتے ہیں اور ان کے اتحاد کا حصہ نہیں بنتے۔ اگر عمران خان کا یہ بیانیہ ان کی انتخابی مہم میں بھی جاری رہا تو پاکستان میں ایک ایسا اتحاد بن سکتا ہے جو امریکہ مخالف بیانیے کی حمایت کرتا ہو۔‘اُن کے مطابق ’اس اتحاد کا منفی اثر اس لیے بھی ہو گا کہ اس وقت تقریباً تمام ہی بین الاقوامی سٹرکچرز یا ادارے امریکہ یا مغربی قوتوں کے زیر انتظام یا ان کی نگرانی میں ہیں، جیسا کہ آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف حتی کہ اقوام متحدہ بھی، تو کسی بھی مزاحمت یا تصادم کی صورت میں پاکستان کے لیے بقا کی جنگ قدرے مشکل ہو گی۔‘

تو نئی حکومت ان حالات کا مقابلہ کیسے کرے گی؟ اس کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر قندیل عباس آنے والے دنوں میں امریکہ پاکستان تعلقات میں استحکام نئی حکومت کے ایک بڑا چیلنج قرار دیتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ کسی بھی طرح حالات میں بہتری کو عمران خان کے بیانیے سے جوڑا جائے گا کہ چونکہ امریکہ حکومت کی تبدیلی میں ملوث تھا سو اب اپنی پسند کی حکومت کے لیے حالات سازگار کیے جا رہے ہیں۔’ایک سخت سکروٹنی کا دور شروع ہو رہا ہے اور نئی حکومت کے لیے توازن قائم رکھنا خاصا مشکل نظر آتا ہے۔‘

ڈاکٹر قندیل کے مطابق ’مستقبل کی حکومت کے لیے یہ بڑا چیلنج ہو گا کہ ایک متوازن خارجہ پالیسی لائے۔ ابھی ہمیں انڈین سینٹرک پالیسی سے نکلنا ہو گا اور حالیہ قومی سلامتی پالیسی کے مطابق جیو سٹریٹجک کی بجائے جیو اکنامک پالیسی پر عمل کریں گے تو بہتر ہو گا۔ ہمیں توازن لانا ہو گا امریکہ اور مغرب کے ساتھ تعلقات میں اور اس کے ساتھ ساتھ چین اور روس کے ساتھ تعلق میں بھی۔‘

’چین تعلقات کا خمیازہ بھگتا اب غیر جانبداری پر نقصان ہو سکتا‘
بین الاقوامی اُمور کی ماہر ہما بقائی کہتی ہیں کہ چین کے ساتھ بہتر تعلقات اور امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کرنے کی کوشش کا خمیازہ تو پاکستان پہلے ہی بھگت رہا ہے اور اب اس غیرجانبداری پر نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

‎’غیرجانبدار رہنے کا خمیازہ بھگتنے کی بات ہے تو چین کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے ہمیں قیمت تو پہلے ہی ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ مثال کے طور پر ہم فیٹف میں گرے لسٹ میں ہیں باوجود اس کے کہ ہم سوائے ایک کے ان کی زیادہ تر شرائط پر عمل کر چکے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’پاکستان یہ بھی سمجھتا ہے کہ امریکہ اسے عوامی سطح پر شرمندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‘

’پاکستان میں یہ سوچ بھی موجود ہے ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں بھی امریکہ اور مغرب کا ساتھ دینے کا، اندرونی اور بیرونی طور پر، فائدے سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔‘

ہما بقائی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حال ہی میں جاری ہونے والے قومی سلامتی پالیسی میں واضح طور پر کہا گیا کہ ’پاکستان کسی بلاک کا حصہ نہیں بنے گا۔ اور یہ کہ پاکستان کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کی بنیاد اب معیشت ہے۔‘

’پاکستان دفاعی ساز و سامان کے لیے امریکہ اور مغرب کا محتاج ہے؟‘
معیشت کا حال دیکھیں تو پاکستان کا سب سے زیادہ انحصار امریکہ اور مغربی ممالک پر ہی ہے۔ سنہ 2019 میں پاکستان کی کل برآمدات 26.6 ارب ڈالر تھیں، جس میں سے 14.4 مارکیٹ شیئر کے ساتھ امریکہ پہلے نمبر پر تھا۔ چین کا حصہ تقریباً آٹھ فیصد تھا جبکہ برطانیہ اور جرمنی چھ فیصد شیئر کے ساتھ تیسرے اور چوتھے نمبر پر تھے۔ لیکن روس کا شیئر صرف ایک فیصد رہا۔

اسی طرح قرض کا حجم 85 ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکج لینے کے لیے مغربی طاقتوں کے دخل کی ضرورت پڑتی ہے۔ جبکہ ایف اے ٹی ایف منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی فنڈنگ پر نظر رکھنے والے ادارے میں مغربی طاقتوں کی مخالفت پاکستان کے لیے مشکل پیدا کر سکتی ہے۔

اگرچہ آج پاکستان کے دفاعی سازوسامان کا تقریباً 60 فیصد حصہ تو چین سے آ رہا ہے تاہم باقی 40 فیصد مغرب سے خریدا جاتا ہے۔ اور اس 40 فیصد میں انتہائی اہم اور دفاعی نوعیت کا جنگی سازوسامان شامل ہے۔ مثلاً پاکستان کی فضائیہ کے ایف سولہ طیارے امریکی اور میراج فرانس کے ہیں۔

پاکستانی بحریہ کی آگسٹا آبدوز فرانسیسی ساختہ ہے۔ آرمی ایوی ایشن کے ایم آئی 17 اور 35 روس کے ہیں مگر کوبرا اور بیل امریکی اور پوما اور ایکویرل فرانسیسی ہیں۔ ٹینکوں میں یوکرین سے ٹی اے ٹی یوڈی ٹینک مگر پاکستان کی اہم ترین آرٹلری گنز کا بڑا حصہ امریکی ساختہ ہے۔ اسی طرح فوج کے مواصلاتی نطام کا بڑا حصہ چین اور امریکہ سے آتا ہے۔

اب تشویشناک امر یہ ہے کہ اس تمام ساز و سامان میں پاکستان کا ان ممالک کے ساتھ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کا معاہدہ نہیں ہے، اس لیے ان میں ایک معمولی پرزے کی خرابی کی صورت میں بھی پاکستان کو ان ممالک سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔

عسکری ذرائع کے مطابق جب فرانس کے سفیر کی بے دخلی کا معاملہ اٹھا تو فرانس نے بعض فوجی سازوسامان کے پرزے فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

’سفارتی کیبل سے زیادہ سیاسی بیانات سے نقصان پہنچا‘
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خط سکینڈل کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے تجزیہ نگار مشرف زیدی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی سفارتکاری کو سابق حکومت کے اس خط سکینڈل کا بوجھ نہ صرف پاک، امریکہ تعلقات بلکہ دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں بھی اٹھانا پڑے گا۔'

ان کا کہنا تھا کہ ’پاک امریکہ تعلقات اس سفارتی کیبل سے اتنے متاثر نہیں ہوئے جتنے سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اس سفارتی خط کے مبینہ متن کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے ہوئے۔‘

انھوں نے کہا کہ بدقسمتی ہے کہ یہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب امریکہ دو وجوہات، جن میں پہلی افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد لوگوں کے انخلا میں پاکستان کا اہم اور کلیدی کردار اور دوسری دوحہ میں طالبان کے ساتھ امریکہ کے امن مذاکرات میں سہولت کاری، کی بنا پر پاکستان کا شکر گزار تھا اور ان دونوں کے جو فوائد پاکستان کو حاصل ہونا تھے، ان بیانات کے باعث انھیں روکا گیا جو وزیر اعظم نے تسلسل کے ساتھ دیے تھے۔

مشرف زیدی کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اسامہ بن لادن کو ’شہید‘ قرار دینا، طالبان کے افغانستان پر قبضے کو ’غلامی کی زنجیریں توڑنے‘ کا کہنا، ان تمام بیانات کو امریکہ میں بہت توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے بیانات نے مسلسل امریکہ میں پاکستان مخالف لابی کو مواد فراہم کیا ہے۔

مشرف زیدی کا مزید کہنا تھا کہ اس کے جواب میں امریکہ کا ردعمل بھی بڑا خوفناک تھا کیونکہ صدر بائیڈن نے صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد دنیا کے چھوٹے ممالک کے سربراہان سے ٹیلی فون پر رابطہ کرنے میں کوئی تکلف نہیں کیا مگر جب پاکستان کی بات آئی تو انھوں نے سابق وزیر اعظم کو ایک فون کال بھی نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاک امریکہ تعلقات میں غلطیاں دونوں جانب سے ہوئی ہیں۔

مشرف زیدی کے مطابق ’کیونکہ پاکستان کو اقتصادی طور پر امریکہ کی زیادہ ضرورت ہے اس لیے پاکستان کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کے کسی بھی سیاسی رہنما کو غیر ذمہ دارانہ بیان نہیں دینے چاہییں۔‘
'یہ بیانات عوام کو تو خوش کر دیں گے لیکن ملکی مفادات کو نقصان پہنچائیں گے‘
ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ’امریکی عوام میں پاکستان کا نام خراب کرنے میں جہاں ایک طرف انڈیا اہم کردار ادا کرتا ہے تو ایسے میں ہماری جانب سے بار بار انھیں ایسا مواد پیش کرنا بہت نقصان دہ ہے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ شاید امریکہ کا پاکستان سے بہتر کوئی اور دوست نہیں ہے کیونکہ جتنی کم معاشی امداد کے عوض پاکستان نے جو جو کام کیے ہیں وہ دنیا اور امریکہ کے لیے بہت اہم ہیں۔

عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد تعلقات میں بہتری پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں بہتری آنی چاہیے لیکن آنے والی حکومت کے لیے عمران خان ایک مشکل صورتحال چھوڑ کر گئے ہیں کیونکہ جیسے ہی تعلقات میں بہتری آئے گی تو ان کی جماعت اور حمایتی اپنے سیاسی بیانیے کو تقویت دینے کی کوشش کریں گے۔ جس سے انھیں تو سیاسی فائدہ مل سکتا ہے لیکن ملک کو نقصان ہو گا۔‘

سفارتی خط سکینڈل کا دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر بھی اثر ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں مشرف زیدی نے کہا کہ ’بالکل ہو گا کیونکہ اب کوئی بھی غیر ملکی سفیر پاکستانی سفیر سے بات کرنے میں محتاط ہو گا کیونکہ انھیں خدشہ ہو گا کہ ان کی کہی کوئی بات یا بیان کو توڑ مروڑ کر یا ایسے انداز میں تو نہیں پیش کیا جائے گا کہ جیسے وہ پاکستان کو دھمکی دے رہے ہوں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ سفارت کاروں کو جس بے تکلفی سے آپس میں بات کرنے چاہیے اس پر اس معاملے کے بعد بظاہر ایک قدغن لگ گئی ہے۔

بشکریہ بی بی سی
واپس کریں