دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ڈنڈا ڈولی۔امام صافی
No image بچپن میں ہم لوگوں کے پسندیدہ کھیلوں میں بنٹے (گولیاں) نمبر ون کھیل تھا۔ بنٹے کھیلتے ہوئے کوئی جیبیں بھرتا کھلاڑی اچانک میدان سے بھاگ نکلتا۔ مخالفین لپک کر اسے پکڑ لیتے تو وہ روتا کہ مجھے تو امی نے کہا تھا دہی لانے کو، یا سبزی لانے کو، یا کوئی اور بہانہ کرتا۔
وہ روتا، چیختا، امی ماریں گی کی دہائیاں دیتا لیکن مخالفین کہتے کہ "پتر یا بنٹے واپس کر، یا گیم پوری کر"

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ بھاگنے والا ہار رہا ہوتا۔ وہ جیب میں بچے کچے بنٹے بچانے کے چکر میں ہوتا تا کہ پھر کھیلنے کے لیے کچھ بنٹے پاس رہیں لیکن مخالفین اسے کھنگال کرنے کے چکر میں ہوتے۔
اور پھر جب بھگوڑا کھلاڑی پاؤں پسار کر باقاعدہ رونے لگتا تو اسے ڈنڈا ڈولی کر کے اٹھا کر میدان تک لاتے اور ایک وقت مقرر کرتے کہ فلاں وقت تک کھیل۔ چاہے جیت یا ہار، پھر تجھے نہیں روکیں گے۔
خان صاحب کے ساتھ بعینہہ یہی کھیل ہوا ہے۔ خان صاحب کو جب تک جیت کا یقین تھا، دھمکیاں دیتے رہے، شیخیاں بگھارتے رہے، تڑیاں لگاتے رہے۔ جب یقین ہوگیا کہ اب ہار یقینی ہے تو فاؤل پلے کرتے ہوئے اسمبلیاں تحلیل کر کے میدان سے بھاگ نکلے تاکہ کل کلاں کو کچھ تو پاس ہو عوام کے پاس جانے کے لیے، اور اس بدترین ہار پر ڈی چوک میں مقدس مہینے میں گھنگھرو توڑ جشن کا بھی اعلان کر دیا۔
لیکن اپوزیشن انھیں ڈنڈا ڈولی کر کے واپس میدان میں لے آئی ہے کہ بچے، چاہے جیت یا ہار، لیکن گیم پوری کر۔

واپس کریں