دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
قوس قزح کیسے لگے گا ٹھیک نشانہ بھلا ترا۔اسرار ایوب
No image مسئلہ یہ نہیں کہ ہم گدھا گاڑی پر سوار ہیں اور ہماری رَیس جن کے ساتھ ہے وہ ریسر گاڑیوں میں بیٹھے ہیں، مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم دوڑ بھی جاری رکھنا چاہتے ہیں اور گدھا گاڑی سے اُترنے کوبھی تیار نہیں۔ شاید ہمیں یاد نہیں کہ جب سسلی اور سپین فتح ہوئے اور مسلمانوں کی تہذیب یورپ کی تہذیب سے ٹکرائی تو اہلِ مغرب نے یہ تسلیم کرنے میں وقت برباد نہ کیا کہ مسلمانوں کا نظامِ زندگی ان سے کہیں بہتر ہے، انہوں نے مان لیا کہ وہ غلط راستے پر چل رہے ہیں تو وہ درست سمت میں چلنا شروع ہوگئے۔اسی کو ’’رینیسنس اور ریفارمیشن‘‘ کہتے ہیں جو یورپ کو(اس کے اپنے مورخین کے بقول) ارتقائی مراحل کی بلند ترین سطح پر لے آئی۔ جبکہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم یہی تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ہم غلط ہیں تو صحیح راستے پر چلنے کا سوال ہی کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔

قرآن مومنین کی ایک خوبی یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ اپنے غصے کی کظامت کرتے ہیں(کاظمین الغیظ)،جس کا درست مطلب اس وقت تک سمجھ نہیں آ سکتا جب تک یہ نہ جان لیا جائے کہ عرب لوگ پانی کے کنوئوں کو زمین دوز نالیوں کے ذریعے ایک خاص سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیا کرتے تھے تاکہ کسی کنوئیں میں آنے والے ضرورت سے زیادہ پانی کادھارا خود بخود اس کنوئیں کی طرف مڑ جائے جہاں پانی کم ہے،اس عمل کو کظامت کہا جاتا تھا۔غصے کی کظامت کا مطلب عربی لغت (تاج العروس،محیط المحیط وغیرہ)کی رو سے یہ ہے کہ منفی جذبات کے دھارے کو مثبت سمت میں موڑ دیا جائے۔کظامت کے عمل کو ماہرینِ نفسیات sublimationکہتے ہیں جو ڈپریشن، اینگزائٹی اور سٹریس میں علاج کے طور پر تجویز کیا جاتا ہے۔

ایک استاد کی کہانی یاد آ رہی ہے جو ہمارے پڑوس کے گائوں میں رہتا تھا، اُس کا تعلق نچلی ذات سے تھا جبکہ اس نے ایک اعلی النسل بچے کی پٹائی کر دی،بچے کے باپ نے ہیڈ ماسٹر کے دفتر میں سب کے سامنے استاد کو بڑا بے عزت کیا کہ تجھ ’’ کمّی کمین‘‘نے میرے بچے پر ہاتھ اٹھانے کی جرات کیسے کی؟ استادکو بھی بہت غصہ آیا لیکن اس نے واپس گالیاں نکالنے یا ہاتھ اٹھانے کے بجائے ملازمت سے استعفی دے دیا اور گاوں چھوڑ کربیرونِ ملک چلا گیا،سر پر آگے بڑھنے کا جنون سوار تھا،دن رات کی مشقت اسے بڑا تھکاتی تھی لیکن اس کا غصہ اسے مزید محنت پر اُکساتارہتا تھا،اُس نے اپنے غصے کی کظامت کی اوراتنا بڑا بزنس مین بن گیا کہ اونچی ذات کے لوگ اس کے یہاں نوکریوں کی درخواستیں دینے لگے جن میں بچے کا باپ بھی شامل تھا۔

سیدھی سی بات ہے کہ اگر مسلمان خود پر ڈھائے جانے والے’’ مظالم‘‘ کا بدلہ لینا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے غصے کو کظامت کرنی ہوگی جیسے یہودیوں نے کی جب 1941سے 1945تک ان کی 66فیصد آبادی(جو 60لاکھ بنتی ہے) جرمنی اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتار دی گئی۔ یہودیوں نے اپنی توجہ علم وہنر پر مرکوز کر دی اور فکر و عمل کی راہوں پر چلنا شروع کر دیا ۔ اب اگر یہودیوں کا مقابلہ مسلمانوں سے کیا جائے توآج یہودیوں کی آبادی تقریباً ایک کروڑ چالیس لاکھ ( کرہء ارض کی کل آبادی کا 0.22فیصد )ہے جبکہ مسلمانوں کی تعداد ایک ارب ساٹھ کروڑ کے لگ بھگ ہے (جو دنیا کی کل آبادی کا 23فیصد بنتا ہے)۔دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ اگر زمین پر آباد انسانوں کی کل آبادی کو 100سے تعبیر کیا جائے تواس میں 23لوگ مسلمان ہوں گے جبکہ یہودیوں کی تعداد ایک انسان کے چوتھے حصے کے برابرہو گی ، لیکن یہ ایک بٹا چار انسان23سالم انسانوں کے قابو میں نہیں آرہا بلکہ ساری دنیا کو ناکوں چنے چبوا رہا ہے۔ اس لئے کہ یہودی کام کر رہے ہیں اور مسلمان باتیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا یہودیوں نے مسلمانوں کے 12کے مقابلے میں 193نوبل انعام حاصل کیے ہوئے؟ امن کے نوبل انعامات نکال دیے جائیں تو مسلم اعزازات کی تعدادسکڑ کر 3رہ جاتی ہے جن میں ایک ادب ایک طب اور ایک کیمسٹری میں جیتا گیا (ایک فزکس میں بھی بتایا جاتا ہے لیکن اسے حاصل کرنے والے ڈاکٹر عبدالسلام ہیں جنہیں قادیانی ہونے کی بنا پرہم مسلمان نہیں مانتے)جبکہ یہودیوں نے ادب میں13 طب میں55کیمسٹری میں36، اورمعیشت میں51 انعام جیتے۔

یہاں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ آج کی دنیا کے ان پڑھ ترین ممالک کی فہرست میں پہلے دس کے دس ملک مسلمانوں کے ہیں جبکہ پڑھے لکھے ترین دس میں ایک بھی مسلمانوں کا نہیں،سومعاشی اعتبار سے مضبوط ترین دس ممالک میں بھی کوئی مسلمان ملک شامل نہیں۔ اپنے چند اشعار یاد آرہے ہیں، انہیں غور سے پڑھیں تاکہ بات انجام کو پہنچ سکے۔
اک تُو ہی ٹھیک سارا زمانہ خراب ہے
کتنا خراب تُو دلِ خانہ خراب ہے
کیسے لگے گا ٹھیک نشانہ بھلا ترا
بندوق ہی کا تیری نشانہ خراب ہے
میں تو یہ پوچھتا ہوں کہ کیوں گا رہا ہے تُو
کب میں نے یہ کہا ترا گانا خراب ہے
نقّاد تیرا لاکھ سراہے تجھے مگر
اچھا ہو کس طرح جو فسانہ خراب ہے

بندوق کا نشانہ خراب ہوجائے تو اسے اسلحہ خانے بھیج دیا جاتا ہے تاکہ نشانہ ٹھیک کروایا جاسکے ورنہ اچھے سے اچھے شکاری کا نشانہ بھی چوک جاتا ہے۔ ہمیں بھی اپنی بندوق ’’آرمری‘‘میں بھیجنی ہوگی۔نشانہ ٹھیک کرنے کے لئے اپنی ترجیحات کی فہرست ازسرِ نو مرتب کرنی ہوگی ، علم و ہنر کو منزلِ مقصود بنانا ہوگا، فکر و عمل کی راہوں پر چلنا ہوگا، گدھا گاڑی کی جگہ ریسر کار پر بیٹھنا ہوگابصورتِ دیگر جو ہو رہا ہے اور جو ہوسکتا ہے اُس کااندازہ اگر آپ کو ہو تویقین مانیے آپ کی نینداُڑجائے۔
قوس قزح
کیسے لگے گا ٹھیک نشانہ بھلا ترا

واپس کریں