دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا نظریہ ضرورت کی تدفین ہو گئی؟
No image سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی 3 اپریل کی رولنگ پر از خود نوٹس کیس کا تاریخی فیصلہ سنادیا۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دیا کہ ڈپٹی سپیکر کی تین اپریل کی رولنگ اور قومی اسمبلی کو تحلیل کرنا آئین سے متصادم تھا جس کے بعد سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی بحال کردی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قومی اسپیکر قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اپریل کو بلائیں۔ سپریم کورٹ میں تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ سامنے آچکا ہے کہ سپیکر کی رولنگ غلط ہے۔ اب آگے کیا ہونا ہے، یہ دیکھنا ہے۔
پانچ ججز پر مشتمل بنچ کے اس فیصلے نے پاکستان تحریکِ انصاف کی سیاست کو بڑا دھچکا پہنچایا ہے۔ اتوار کی صبح جب انہوں نے ڈپٹی سپیکر سے یہ غیر قانونی رولنگ دلوائی تھی، تو اسے سرپرائز کا نام دیا تھا اور اپنے مخالفین کا خوب مذاق اڑایا تھا۔ انہوں نے اس غیر آئینی اقدام کو اپنی بڑی فتح قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اگر میں پہلے ہی بتا دیتا کہ میں کیا فیصلہ کرنے والا ہوں تو سب لوگ اب تک سرپرائز میں نہ ہوتے۔ لیکن اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ ممکن ہے عمران خان اب بھی کوئی غیر قانونی سرپرائز دینے کا سوچ رہے ہوں، یا کوئی اور بہانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں، مثلاً اے آر وائے نیوز پر ان کے قریبی سمجھے جانے والے صحافی صابر شاکر کا کہنا ہے کہ یہ سپریم کورٹ کا حکم سپیکر قومی اسمبلی کے لئے لیکن ممکن ہے کہ ہفتے کی صبح سپیکر صاحب بیمار ہوں۔ ایسے آئیڈیاز یقیناً عمران خان اور تحریکِ انصاف کے زرخیز دماغوں میں بھی آ رہے ہوں گے یا ممکن ہے کہ وہ کسی اور طرح کے سرپرائز کے بارے میں بھی سوچ رہے ہوں مگر ایک خود کش حملے کےبعد ایک اور خود کش حملہ ان کے چیتھڑے اڑا سکتاہے۔

کچھ ایسی ہی صورتحال پنجاب میں ہے جہاں عمران خان کے اتحادی پرویز الٰہی اپنی جوڑ توڑ کی مہارت رکھنے کی شہرت کے باوجود عددی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام ہیں اور انہوں نے پنجاب اسمبلی میں ایک مبینہ توڑ پھوڑ کی ویڈیو دکھا کر اجلاس کئی دن کے لئے ملتوی کر دیا۔ سپیکر کا عہدہ چھوڑا نہیں اور وزارتِ اعلیٰ کا الیکشن لڑ رہے ہیں، شکست دیکھ کر اجلاس ملتوی کیا اور ڈپٹی سپیکر نے اجلاس بلایا تو اس کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آ گئی اور سپیکر صاحب نے ان کو تفویض اختیارات واپس لے لیے جن کے تحت وہ اسمبلی کا اجلاس بلا سکتے تھے۔ وہ بھی اخلاقی طور پر یہ الیکشن ہار چکے ہیں کیونکہ ان کے مخالف حمزہ شہباز اپنی عددی اکثریت ایک ہوٹل میں ثابت کر چکے ہیں۔

سپریم کورٹ کے اس تاریخ ساز فیصلہ نے ایک طرف نظریہ ضرورت کی روایت کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ عدالت کا کام ماورائے آئین اقدامات کا دفاع کرنا نہیں ہے بلکہ ججوں کو سختی سے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کسی فرد یا ادارے کا کوئی اقدام ملکی آئین کے مطابق ہے یا اس کی خلاف ورزی ہے۔ اس فیصلہ نے یہ اصول بھی طے کر دیا ہے کہ پارلیمنٹ کے عہدیداروں کے طور پر قومی اسمبلی کے اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے اور اقدامات کو آئین عدالتی مداخلت سے ماورا قرار دیتا ہے لیکن اگر کسی معاملہ میں پارلیمنٹ کا کوئی عہدیدار آئین کی صریح خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہو تو اس آئین شکنی کو شق 69 کے تحت تحفظ نہیں دیا جاسکتا۔
اس طرح یہ اصول واضح ہوا ہے کہ کوئی فرد خواہ کسی بھی عہدے اور اختیار کا مالک ہو لیکن اسے ماورائے آئین کوئی قدم اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔ خود آئین شکنی کے مرتکب ہونے والے کسی شخص کو اسی آئین کی کسی دوسری شق کے تحت تحفظ فراہم کرنا درست نہیں ہو سکتا۔ ماضی میں معروضی حالات کی مجبوری اور قومی مفاد کی حفاظت کے نام پر غیر آئینی اقدامات کو جائز قرار دینے کے لئے نام نہاد نظریہ ضرورت ایجاد کیا گیا تھا، جسے مختلف ادوار میں طاقت ور لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلہ نے اس روایت کو دفن کیا ہے۔ اس تاریخی فیصلہ پر سپریم کورٹ کے تمام جج حضرات مبارک باد کے مستحق ہیں۔
قومی میڈیا میں یہ خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ بنی گالہ میں عمران خان کی زیر قیادت اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مضمرات پر غور کیا گیا اور اس صورت حال سے نکلنے کے لئے دوسری باتوں کے علاوہ اسمبلی سے استعفے دینے کا آپشن بھی زیر بحث آیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اسمبلی کے ارکان کی بڑی اکثریت رکنیت چھوڑنے کا اعلان کردے تو قومی اسمبلی کے لئے کام کرنا مشکل ہو جائے گا جس کے نتیجہ میں لازمی طور سے اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کروانا ہوں گے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اگر تحریک انصاف اس انتہائی اقدام کا فیصلہ کرتی ہے تو اپوزیشن پارٹیاں کیسے اس کا مقابلہ کریں گی تاہم ایک بات واضح ہے کہ اس صورت میں ملک میں سیاسی بحران مزید شدت اختیار کرے گا۔ تحریک انصاف سمیت سب سیاسی پارٹیوں کو ایسے کسی انتہائی اقدام سے گریز کرنا ہو گا جو ملک میں انتشار و بے چینی میں اضافہ کا سبب بنے۔
بشکریہ۔ شفقنا اردو
واپس کریں