دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
چانکیہ کوتلیہ کی شخصیت اور اس کا فلسفہ
No image برصغیر کی تاریخ کے ایک ہوشیار اور چلاک شخص چانکیہ کوتلیہ کی شخصیت اور اس کی باتیں یاد آجاتی ہیں۔ وہ سماج و سیاست کا گرو کہلاتا تھا، اس کی سیاست میں اخلاقیات نہیں تھیں اور وہ کسی اخلاقی اصول کا قائل نہیں تھا۔ اس کی اپنی اخلاقیات اور سیاسی اصول تھے۔ چانکیہ جوڑ توڑ کے ساتھ سفاکیت کا بھی قائل تھا۔ہندوستان کے پہلے وزیرِاعظم جواہر لال نہرو تو چانکیہ کو اپنا روحانی گرو کہا کرتے تھے۔ اس کی کتاب ارتھ شاستر 150 ابواب پر مشتمل ایک اہم دستاویز ہے جس نے برصغیر کے تمدن اور اسلوب سیاست پر گہرے اور عمیق اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان اثرات کا عکس ہماری سیاست پر بھی پوری طرح موجود ہیں۔

چانکیہ کی سیاست کی تعلیم میں سب چلتا ہے اور سب جائز ہے اس لیے چانکیہ کہتا تھا کہ:
’ہم میں سے کسی کو بہت زیادہ دیانتدار نہیں ہونا چاہیے۔ سیدھے کھڑے ہوئے درختوں کو پہلے کاٹا جاتا ہے اسی طرح دیانتدار افراد کو بھی پہلے ناکارہ کیا جاتا ہے‘۔اس کے مطابق:
’اپنی کمزوری اور اپنی ناکامی کو کبھی تسلیم نہ کرو اور ہمیشہ اپنی شکست کا الزام دوسروں پر تھوپ دو‘۔چانکیہ کا ہی کہنا تھا کہ جن لوگوں سے دوستی رکھو ان سے دوستی میں ہمیشہ اپنی غرض پیش نظر رہے اور مکارانہ سیاست کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔ وہ مخالف کو شیشے میں اتارنے کے فن کا ماہر تھا اور وہ اپنے مدمقابل کو میٹھی باتیں سنا کر اور لوریاں دے کر گہری نیند سلانا بھی جانتا تھا۔چانکیہ کی خصوصیت تھی کہ وہ اپنے مخالف کی جانب گرم جوشی سے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتا تھا اور دھن، دولت، پیسے سے اسے مرعوب کرنے کی پوری کوشش کرتا تھا، کیونکہ اس کا فلسفہ تھا کہ:

’دشمن کی طرف دوستی و محبت سے آگے بڑھو، اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاؤ، جب وہ قریب آئے تو اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دو، پھر اس کے ساتھ مل کر بچاؤ، بچاؤ کی صدا لگاؤ اور جب دشمن مرجائے تو اس کی لاش پر بین کرو‘۔
چانکیہ، چندر گپت موریا کا استاد اور وزیرِاعظم تھا۔ تاریخ میں ہے کہ اسی کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے 322 قبل مسیح میں چندر گپت موریا نے موریا سلطنت کی بنیاد ڈالی تھی۔ ایک مرتبہ چندر گپت موریا نے چانکیہ سے پوچھا:
’گرو! بڑے اور مضبوط دشمن پر حملہ کب کرنا چاہیے؟‘
چانکیہ نے جو جواب دیا اسے دیکھیں اور ایک لمحے کے لیے اپنی سماجی اور سیاسی صورتحال پر غور کریں۔ چانکیہ نے جواب دیا کہ:
’جناب دشمن انسان ہو یا ملک اس کی اصل طاقت اس کے دوست یا بھائی اور قریب کے ہمدرد ہوتے ہیں، اس لیے بڑے دشمن پر حملے سے پہلے اس کے ہمدردوں، اس کے قریبی لوگوں اور بھائیوں کو اس سے دُور کردیا جائے۔ جب یہ یقین ہوجائے کہ دشمن کا کوئی دوست اور ہمدرد اب اس کا ساتھ نہیں دے گا تو دشمن پر فوراً حملہ کردیا جائے‘۔’ایک بار چانکیہ، بادشاہ کے ساتھ شکار پر گیا، اس دوران ایک جھاڑی سے بادشاہ کا دامن الجھ گیا اور وہ وہاں زخمی ہوگیا، بادشاہ نے حکم دیا کہ جھاڑی کو نکال کر پھینک دو تو چانکیہ نے کہا آپ یہ نہ کریں اور اس نے شکر کا ایک ڈبہ منگوایا اور اس نے جھاڑی کی جڑ پر انڈیل دیا۔ بادشاہ نے کہا یہ تم نے کیا کیا؟ تو چانکیہ نے کہا کل تک رک جائیں، کل دیکھیے گا کیا تماشہ ہوتا ہے۔’اگلے دن بادشاہ کو دلچسپی ہوئی اور جب بادشاہ چانکیہ کے ساتھ وہاں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ چیونٹیوں نے شکر کی لالچ میں جھاڑی کی پوری جڑ خالی کردی۔ بادشاہ ظاہر ہے حیران ہوا اور کہا تم تو بہت ہی مکار آدمی ہو۔
عامر اشرف کے کالم سے اقتباس۔ بشکریہ ڈان نیوز
واپس کریں