دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عمران خان کی حکومت کی ناکامیاں اور کامیابیاں
No image اگست 2018 میں تحریک انصاف چیئرمین عمران خان نے پاکستان کے بائیسویں وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اس دن غالبا کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ تقریبا ساڑھے تین سال بعد اسی ایوان میں جن افراد کے ووٹوں کی مدد سے انھوں نے اقتدار سنبھالا وہی لوگ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے حزب اختلاف سے ہاتھ ملا لیں گے اور وزیر اعظم اپنی ہی حکومت ختم کرنے کا قدم اٹھائیں گے۔

اس وقت پاکستان کی عوام کی ایک بڑی تعداد پر امید تھی کہ وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان اپنے متعدد وعدوں اور دعووں کو عملی جامہ پہنائیں گے جن کے تحت پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ، احتساب اور بیرون ملک سے کرپشن کے پیسے کی واپسی، بیرونی قرضوں میں کمی، اداروں خصوصا پولیس کی اصلاحات، جنوبی پنجاب صوبے، وزیر اعظم ہاوس میں یونیورسٹی کا قیام، ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھروں کے ساتھ ساتھ ملک میں معاشی ترقی کے ایک نئے باب کا آغاز ہونا تھا۔

یہ تمام وعدے تو پورے نہیں ہو سکے اور خود وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وفاقی وزرا نے بھی کئی بار اعتراف کیا کہ الیکشن سے پہلے کے تمام وعدے وفا نہیں ہو سکے جس کی مختلف وجوہات بھی گنوائی جاتی ہیں۔ لیکن بطور وزیر اعظم عمران خان کا دور اقتدار کیسا تھا اور کن باتوں کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا؟

بی بی سی نے ماہرین کی مدد سے تحریک انصاف اور وزیر اعظم عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار کا جائزہ لے کر یہ تعین کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کون سی کامیابیاں اور ناکامیاں تھیں جو عمران خان کی حکومت کی پہچان بنیں۔

ناکامیاں
احتساب
سنہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل احتساب تحریک انصاف کی انتخابی مہم کا ایک اہم حصہ تھا۔ حکومت میں آنے کے بعد قومی اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں بھی وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ ملک کی دولت لوٹنے والوں کا کڑا احتساب ہو گا۔ لیکن یہ عمل متنازع اور سیاست کی نظر ہوتا نظر آیا۔ گرفتاریوں اور کیسز کا سلسلہ شروع ہوا تو اپوزیشن کی جانب سے جوابی الزامات لگے لیکن مجموعی طور پر کیسز منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکے۔

وزیر اعظم عمران خان نے احتساب کے عمل کی ناکامی کا اعتراف خود بھی کیا۔ دو اپریل کو حکومتی اراکین سے عشایے کے دوران خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ'ہم نے بہت کوشش کی لیکن نیب اور عدالتیں ہمارے کنٹرول میں نہیں تھے۔ '

اس سے قبل یکم اپریل کو ایک نجی ٹی وی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’انھوں (اپوزیشن) نے کیس مکمل نہیں ہونے دیے، کبھی پیش نہیں ہوتے تھے، کبھی کمر میں درد ہو جاتی تھی۔ سب سے زیادہ میرے لیے تکلیف دہ چیز تھی کہ احتساب کے عمل کو ڈس رپٹ کیا گیا، بچایا گیا ان کو، ڈیلز کے تحت۔ مجھے پتہ ہے جان کر ان کے کیسز پر تاخیر کی گئی۔ مجھے سب پتہ ہے، ہم بے بس بیٹھے ہوئےتھے۔ اب میں عوام سے کہوں گا کہ مجھے بھاری اکثریت دیں کیوں کہ کمزور اکثریت سے کمپرومائز کرنا پڑتا ہے۔ ‘

دوسری جانب اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی یکم اپریل کے دن پریس کانفرنس میں کہا کہ 'حکومت کا احتساب ایک فراڈ تھا، بدترین انتقام تھا۔ نیب کا کوئی ایک کیس بتا دیں جو منطقی انجام تک پہنچا ہو۔ ھمارے خلاف کمیشن بنائے گئے، ان کے نتائج کہاں ہیں، یہ ھمارے خلاف لندن اور پتہ نہیں کہاں کہاں گئے لیکن ان کو کچھ نہیں ملا۔'

اپوزیشن لیڈر نے الزام عائد کیا کہ 'اس حکومت کے دوران چینی،گندم، ادویات، گیس کے اربوں روپے کے سکینڈلز ہیں، وہ کہاں گئے۔'

صحافی عارفہ نور نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت احتساب کے محاذ پر بری طرح ناکام ہوئی لیکن اس کی توقع بھی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں احتساب کے عمل کو گہری نظر سے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ احتساب کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور تحریک انصاف کا دور بھی کچھ مختلف نہیں تھا۔

تجزیہ کار مشرف زیدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ احتساب کے معاملے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک میں کرپشن میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ انہوں نے حکومت کے دور میں منظر عام پر آنے والے چند بحرانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ چینی یا گندم سکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہو سکی۔

صحافی فہد حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا بیانیہ الیکشن سے پہلے جو بھی تھا، حکومت میں آنے کے بعد اس بات کی ضرورت تھی کہ اپوزیشن سے کم از کم ایک بنیادی ورکنگ ریلیشن قائم ہو، سیاسی درجہ حرارت کم ہو تاکہ ریاستی معاملات چل سکیں۔ 'اس سے حکومت کو اپنے اصل ایجنڈا پر کام کرنے کا بھی موقع ملتا لیکن ان کی توجہ گورننس اور ڈیلیوری سے ہٹ گئی اور غلط ہدف کا پیچھا کیا جاتا رہا جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔'معیشت
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج معاشی محاذ تھا اور ان کا دعویٰ تھا کہ وہ ملک کی معیشت کی کایا پلٹ دیں گے، آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، قرضے کم کریں گے، مہنگائی کا خاتمہ کریں گے لیکن یہ مشکل دعوے تھے۔

ان کے دور میں پاکستانی روپے کی قدر میں ریکارڈ گراوٹ، مہنگائی سے لے کر قرضوں کے حجم میں اضافے تک کئی معاشی چیلنجز شامل تھے جس کے دوران تین بار وزیر خزانہ بھی تبدیل ہوئے۔

وزیر اعظم عمران خان کے مطابق معاشی حالات بہتر ہو چکے تھے لیکن پھر کورونا کی وبا آئی اور عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافہ ہوا۔

وزیر اعظم نے یکم اپری کو ایک نجی ٹی وی انٹرویو میں حکومت کی معاشی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ 'مہنگائی عالمی مسئلہ ہے، شہباز شریف آ کر کیا کرے گا؟ سارے خطے میں سب سے سستا پٹرول ہم بیچ رہے ہیں، ہم نے ریکارڈ ٹیکس اکھٹا کیا۔ سب سے زیادہ بر آمدات اور ترسیلات زر ہمارے دور میں ہوئیں۔'

دوسری جانب حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ان کے دور میں ریکارڈ نوکریاں پیدا ہوئیں۔ پاکستان کے ادارہ شماریات کے لیبر فورس سروے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گذشتہ تین سال کے دوران پچپن لاکھ نوکریاں پیدا ہوئیں یعنی ہر سال اٹھارہ لاکھ نوکریاں پیدا ہوئیں۔

لیکن صحافی تنویر ملک سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'جب حکومت کا خاتمہ قریب ہے تو اس وقت ایسا دعویٰ سیاسی طور پر فائدہ اٹھانے کے لیے ہو سکتا ہے تاہم اس وقت حقائق سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔'

انھوں نے کہا کہ 'حکومت اقتصادی شرح نمو کو جیسے زیادہ پیش کر رہی ہے اور افراطِ زر کو کم سطح پر دکھا رہی ہے اسی طرح حکومت زیادہ ملازمتوں کے پیدا ہونے کو بھی اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔'

ماہر معیشت ڈاکٹرقیصربنگالی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس حکومتی تاثر کو رد کیا کہ معاشی عشاریوں میں بہتری آئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ تحریک انصاف حکومت کی معاشی پالیسیاں مجموعی طور پر انتظامی ناکامی اور نا اہلی کا شکار رہیں۔ 'بنیادی معاشی عشاریے وہی ہیں جو چالیس سال سے چلے آ رہے ہیں، ان میں کوئی بہتری نہیں ہوئی۔'

انتظامی ناکامی کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'جب مانگ میں اضافہ ہونا تھا، تو کہا گیا کہ جو باہر سے کارگو آنا تھا وہ نہیں آ رہا جس سے بحران شدید ہو گیا۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'ایسا نہیں کہ کسی بھی گذشتہ حکومت میں حالات بہت اچھے تھے، کرنٹ اکاوئنٹ خسارہ ہو یا قرضوں کا حجم، لیکن اس حکومت کے دور میں معاملات میں بگاڑ میں تیزی آئی۔'قرضوں کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے کسی بھی گذشتہ حکومت کے مقابلے میں سب سے زیادہ قرضے لیے۔ 'یہ ان کی مجبوری بھی تھی، کیوں کہ پہلے سے لیے جانے والے قرضوں کی واپسی کے لیے اور پیسہ چاہیے اور اب آنے والی حکومت کو ان سے بھی زیادہ قرضہ لینا پڑے گا کیوں کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ قرضوں سے ہی ملک چلے گا۔'

سیاسی معاملات
کمزور حکومت میں اتحادیوں کو ساتھ رکھنے میں ناکامی، پنجاب میں عثمان بزدار کا بطور وزیر اعلی انتخاب، جہانگیر ترین اور علیم خان کی ناراضگی، کابینہ اور وفاقی وزرا کے اندرونی اختلافات، اپوزیشن سے محاذ آرائی کے نتیجے میں قانون سازی میں مشکلات ان چند سیاسی معاملات میں شامل ہیں جو وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بنیں۔

صحافی فہد حسین نے وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کی سیاسی ناکامیوں پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'تحریک انصاف میں سب کو علم تھا کہ اسٹیبلشمنٹ سے تعلق سب سے اہم ہے لیکن اسی ایک تعلق کو وہ ٹھیک نہیں رکھ سکے۔'

ان کا کہنا تھا کہ دوسرا بڑا معاملہ اپوزیشن سے تعلق خراب کرنا تھا اور تیسرا معاملہ پنجاب میں عثمان بزدار کی تعیناتی کا تھا۔

واضح رہے کہ تحریک انصاف کے دور میں گورنر پنجاب رہنے والے چوہدری سرور نے بھی اتوار کے روز حکومت کی جانب سے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے عثمان بزدار کی بطور وزیر اعلی تعیناتی کو غلط فیصلہ قرار دیا ہے۔

فہد حسین کے مطابق تحریک انصاف کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ٹیم کا چناؤ بھی تھا۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی کابینہ غالباً اب تک کی کمزور ترین کابینہ تھے جس میں چند افراد، جیسے ڈاکٹر فیصل سلطان اور ثانیہ نشتر کے علاوہ زیادہ تر وزرا اس کام کے اہل نہیں تھے جو ان کو سونپا گیا تھا۔

ان کے مطابق تحریک انصاف کی بری کارکردگی کے تاثر کو ترجمانوں کی ایک فوج کی وجہ سے بھی تقویت ملی جن کی توجہ حکومت کی کارکردگی دکھانے کی بجائے اپوزیشن پر مرکوز رہی۔

وزیر اعظم کی ٹیم کا حصہ رہنے والے سابق معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ'وزیراعظم کی ترجیحات بلکل ٹھیک تھیں۔'

'ایشو یہ تھا کہ ان (وزیر اعظم) کے پاس اتنا مارجن نہیں تھا کہ وہ ہر چیز پر عمل کر سکیں جس کی ایک وجہ ان کی کمزور اکثریت تھی۔ جب آپ سیاسی طور پر مضبوط نہیں ہوتے تو آپ کو کمپرومائز کرنے پڑتے ہیں۔ وہ کمپرومائز کابینہ کی تشکیل میں بھی نظر آیا۔ اس ٹیم میں اتحادی بھی تھے او ر اس میں یقینا مسائل تھے۔ ٹیم یقینا اس سے بہتر ہو سکتی تھی لیکن اس کی وجوہات اکثریت سے ہی جڑی ہیں کیوں کہ آپ کو لوگوں کو ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے نہ چاہتے ہوئے بھی۔'خارجہ پالیسی
وزیر اعظم عمران خان کا دور حکومت ان کے اس اعلان سے شروع ہوا جس میں انھوں نے انڈیا، امریکہ سمیت تمام ممالک سے بہتر تعلقات قائم کرنے کا اعادہ کیا۔ لیکن ان کے دور حکومت کے اختتام پر پاکستان کی سیاست میں امریکہ پر حکومت گرانے کی سازش کے الزامات کی گونج تھی۔

تحریک انصاف کے دور حکومت کے آغاز میں عمران خان نے خارجہ محاذ پر بہتر کارکردگی دکھائی۔ سنہ 2019 کے آغاز میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر کا دورہ پاکستان ہو یا اسی سال وزیر اعظم عمران خان کا دورہ امریکہ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات میں مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی کی پیشکش، پاکستان کو افغانستان میں امریکی انخلا کی کوششوں کے دوران بھی ایک اہم کردار حاصل ہوا۔

لیکن دوسری جانب انڈیا سے تعلقات میں نریندر مودی کے وزیر اعظم منتخب ہونے سے پہلے وزیر اعظم کی امید کشمیر کے خصوصی سٹیٹس کو ختم کرنے کے بعد ختم ہو گئی۔ دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی سرد مہری پلوامہ حملے اور بالا کوٹ فضائی حملے کے جواب میں پاکستان کی جوابی کارروائی اور انڈین طیارے کی تباہی کے بعد با قاعدہ کشیدگی میں بدل گئی جس میں زیادہ تبدیلی نہیں آسکی۔

خارجہ محاذ پر اپوزیشن نے حکومت پر چین، سعودی عرب اور امریکہ سے تعلقات خراب کرنے کا الزام بھی لگایا۔

ایک جانب جہاں امریکہ میں جو بائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے بعد وزیر اعظم عمران خان کو فون کال نہ کرنے کا معاملہ اٹھا تو دوسری جانب وزیر اعظم کی جانب سے امریکہ پر ان کی حکومت گرانے کی سازش کے الزام نے ان تعلقات کی خرابی پر مہر ثبت کر دی۔

تجزیہ کار مشرف زیدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ریاست کی خارجہ پالیسی عمران خان دور میں وہی تھی جو اس سے پہلے کے ادروار میں رہی یعنی کہ پاکستان کے مفاد میں سب سے بہتر تعلقات رکھنا اور ان میں توازن رکھنا، یعنی چین سے قریبی تعلقات کو قائم رکھتے ہوئے امریکہ سے بھی بہتر تعلقات رکھنا اور روس سے بھی دو طرفہ تعلقات میں بہتری لانا۔

مشرف زیدی کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں وزرا کے بیانات نے معاملات میں بگاڑ ضرور پیدا کیا۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کے مشیر رزاق داود کی جانب سے چین اور سی پیک پر متنازع بیان ہو یا پھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے سعودی عرب کے بارے میں بیان ہو، حکومتی وزرا کی جانب سے ایسے بیانات دیے گئے جنہوں نے تعلقات پر اثر ڈالا۔میڈیا اور پابندیاں
پاکستان تحریک انصاف حکومت کا دور میڈیا کے حوالے سے متنازع رہا۔ کبھی سوشل میڈیا پر نا پسندیدہ صحافیوں کی فہرستیں سامنے آئیں، تو کبھی صحافیوں کے خلاف آن لائن ٹرولنگ کے الزامات لگے۔ آزادی اظہار رائے پر پابندی کی کوششوں سمیت تحریک انصاف دور میں ایسے قوانین متعارف کروانے کی بھی کوشش کی گئی جن پر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر صحافتی تنظیموں نے احتجاج کیا۔

صحافی عنبر شمسی انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی میں سینٹر فار ایکسیلینس ان جرنلزم کی ڈائریکٹر ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے دور میں میڈیا پر جو قدغنیں لگیں وہ کسی بھی گذشتہ دور حکومت بشمول پرویز مشرف دور سے زیادہ تھیں اور بین الاقوامی اداروں جو میڈیا کی آزادی کی مانیٹرنگ کرتے ہیں ان کی جانب سے بھی کہا گیا کہ پاکستان میں آزادی صحافت گراوٹ کا شکار ہے۔

عنبر شمسی کا کہنا تھا کہ ’اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں پہلے دو سال کئی اپوزیشن لیڈرز کے انٹرویوز پر براہ راست ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے پابندی لگائی گئی، چاہے آصف زرداری کا انٹرویو ہو، یا مریم نواز ہوں، حالانکہ آئین یا قانون نہیں کہتا کہ کسی بھی سزا یافتہ شخص کا انٹرویو نہیں کیا جا سکتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اسی دور میں یہ بھی دیکھا گیا کہ بعض ایسے صحافی جن کو حکومت کا ناقد سمجھا جاتا تھا ان کو میڈیا سے آہستہ آہستہ ہٹایا گیا جن میں حامد میر، طلعت جیسے بڑے نام شامل ہیں۔‘ 'میں خود بھی اس کا شکار ہوئی۔'

عنبر شمسی نے کہا کہ ’اس کے علاوہ ایسے کیسز بھی سامنے آئے جن میں صحافیوں پر تشدد ہوا، مثال کے طور پر مطیع اللہ جان، ابصار عالم، اسد علی طور کے کیسز تھے، جہاں سی سی ٹی وی فوٹیج تھی لیکن ملزمان کے خلاف کیسز انجام تک نہیں پہنچائے گئے۔‘

'سوشل میڈیا پر پابندی لگانے یا اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کی، ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کی کوشش کی گئی، جس کی مخالفت ہوئی اور اس کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔ '

ان کا کہنا تھا کہ 'اس کے باوجود کہ وزیر اعظم عمران خان نے کئی بار یہ کہا کہ پاکستان میں میڈیا برطانیہ سے زیادہ آزاد ہے، ان کے دور میں اس کے برعکس ایسی مثالیں دیکھنے کو ملیں کہ ایسا بلکل نہیں۔'

کامیابیاں کورونا کی وبا، حکومتی حکمت عملی اور معیشت پر اثرات
کورونا کی وبا نے دنیا بھر کی طرح پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا تو یہ سوال اٹھا کہ اس وبا سے نمٹنے کا بہترین طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟ آغاز میں پاکستان نے لاک ڈاون کا راستہ اپنایا لیکن وزیر اعظم عمران خان نے معیشت کو درپیش چیلنجز کے باعث طویل لاک ڈاون کی بجائے رفتہ رفتہ مختلف سیکٹرز کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ کھولنے کی حکمت عملی اپنائی۔

سمارٹ لاک ڈاون کی حکمت عملی کس حد تک موثر رہی اور پاکستان میں کورونا کی وبا کے نسبتا کم کیسز کی کیا وجوہات تھیں؟ اس سوال کا مفصل جواب تو شاید تحقیق کے بعد ہی مل سکے گا لیکن پاکستان کی سکڑتی معیشت پر ممکنہ خطرات اس پالیسی کے باعث نہ صرف ٹل گئے بلکہ فائدہ ہوا۔

ایک جانب جب انڈیا اور بنگلہ دیش میں لاک ڈاؤن کی وجہ سےٹیسکٹائل ایکسپورٹ کی سپلائی چین میں تعطل پیدا ہوا توبیرون ملک خریداروں نے پاکستان کا رخ کر لیا۔

صحافی تنویر ملک کے مطابق پاکستان کو ملنے والے زیادہ ایکسپورٹ آرڈرز کی وجہ سےدو ہزار بیس میں ملک کی ٹیکسٹائل کی برآمدات 4.5 ارب ڈالرسےتجاوزکرگئیں۔ اس حکمت عملی کی بدولت ملک کی مجموعی برآمدات میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب نوکریاں پیدا کرنے میں بھی مدد ملی۔

صحافی تنویر ملک کے مطابق برآمدی شعبے کے افراد کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے اس شعبے کو کافی مدد ملی جیسا کہ توانائی کے نرخوں میں برآمدی شعبے کو ریلیف دیا گیا تو اسی طرح کم شرح سود پر برآمدی شعبے کو توسیع اور جدت سے ہمکنار کرنے کے لیے بھی مرکزی بینک کی جانب سے قرضے فراہم کیےگئے۔

انڈیا کے مقابلے میں اگر جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں کیسز اور اموات کی تعداد بھی کم رہی۔ کورونا وائرس ورلڈ میٹر ویب سائٹ کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں چار کروڑ کیسز اور سوا پانچ لاکھ اموات کے مقابلے میں پاکستان میں پندرہ لاکھ کیسز اور تیس ہزار اموات ہوئیں۔

تحریک انصاف حکومت کا حصہ رہنے والے سابق معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کورونا پر رسپانس ایک کامیابی تھی جس کی بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان میں وبا اتنی خطرناک نہیں تھی جتنی یورپ یا امریکہ میں تھی۔

انھوں نے اس کامیابی کی ایک وجہ اداروں کے درمیان تعاون کے ساتھ ساتھ وفاق اور صوبائی حکومتوں کے درمیان بہتر رابطوں کو بھی قرار دیا۔

ڈاکٹڑ ظفر مرزا کے مطابق 'ڈبلیو ایچ او نے بھی کہا کہ سات ممالک نے وبا کی روک تھام کے لیے بہت اچھا کام کیا جن میں پاکستان دوسرے نمبر پر تھا۔ اس میں وزیراعظم کا کردار اہم تھا کیوں کہ ان کا نظریہ تھا کہ ہم بڑے لاک ڈاون کے متحمل نہیں ہو سکتے، اور ایسا نظام بنایا جائےکہ غریب طبقہ روزگار کما سکے اور وبا پر بھی قابو پایا جا سکے، ایسے میں سمارٹ لاک ڈاون کی حکمت عملی کامیاب رہی۔'

ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق 'کورونا کے خلاف ایک ایمرجنسی رسپانس تھا، باوجود اس کے کہ پاکستان کا نظام صحت مضبوط نہیں تھا'۔ انھوں نے کہا کہ اگر مستقبل کے لیے ملک کو ایسی صوت حال سے نمٹنے کے لیے تیارکرنا ہے تو صحت کے نظام میں سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔
صحت کارڈ
تحریک انصاف کی جانب سے گذشتہ دور حکومت کے دوران خیبر پختونخوا میں صحت کارڈ کا آغاز 2016 میں کیا تھا جس کے تحت ایسے شہریوں کو صحت کی مفت سہولیات فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا جو مالی صورت حال کی وجہ سے اکثر ہسپتالوں کا رخ نہیں کر پاتے ہیں۔

وزیراعظم پاکستان بن جانے کے بعد اس منصوبے کو مزید پھیلایا گیا اور عمران خان نے آٹھ کروڑ شہریوں کے لیے صحت کارڈ فراہم کرنے کا اعلان کیا۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے مطابق اس سکیم کے ذریعے عوام کو مندرجہ ذیل سہولیات میّسر ہیں:

کارڈ ہولڈرز کو سالانہ سات لاکھ 20 ہزار روپے تک علاج کی سہولت دستیاب ہو گی۔
ڈیڑھ کروڑ خاندان یعنی آٹھ کروڑ شہریوں کو مفت صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
اینجیو پلاسٹی، برین سرجری اور کینسر سمیت دیگر امراض کا مفت علاج۔
سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت۔
ملک کے 150 سے زائد ہسپتالوں سے علاج کروایا جا سکے گا۔
وزیر اعظم کے سابق معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صحت کارڈ ایک زبردست پروگرام ہے خصوصا غریب لوگوں کے لیے جن کو مالی تحفظ کی ضرورت ہے۔

لیکن ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق صحت کارڈ کو وسیع پیمانے پر متعارف کروانے کے فیصلے کے دور رس منفی نتائج بھی مرتب ہوں گے۔

'اس کارڈ پر تحفظات ہیں کہ بہت جلدی اس کو پھیلا دیا گیا جو بظاہر تو اچھا لگتا ہے لیکن اس کے دور رس منفی اثرات ہوں گے کیوں کہ اس سے ان لوگوں کو فرق پڑے گا جو مستحق ہیں۔ ایسے عندیے بھی مل رہے ہیں کہ ہسپتالوں پر دباؤ بڑھ گیا ہے اور اس پروگرام کے لیے جتنا پیسہ چاہیے وہ بھی میسر کرنا ایک چیلنج ہو گا اس لیے بہتر ہوتا کہ اس کو صرف حقداروں تک محدود رکھا جاتا۔'وزیراعظم عمران خان نے ملک میں 50 لاکھ نئے مکانات کم آمدن والے طبقے کے لیے تعمیر کرنے کا اعلان کیا

ہاوسنگ
حکمران جماعت تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے کم آمدن والے طبقے کے لیے سستے مکانات کا وعدہ کیا تھا۔

اس منصوبے کے لیے الگ سے 'نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی' قائم کی گئی اور ابتدائی مرحلے میں سات شہروں میں مکانات کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔

حکومت نے آسان گھر سکیم کے تحت بینکوں کو آسان شرائط پر قرضہ فراہم کرنے کی بھی ترغیب دی جس میں 20 لاکھ سے لے کر ایک کروڑ تک قرضے مختلف مدت کے لیے فراہم کرنا شامل ہیں۔

اسی کے ساتھ حکومت نے تعمیراتی شعبے کے لیے دو ایمنسٹی سکیمیں متعارف کرائیں تاکہ اس کے ذریعے تعمیراتی شعبے کو فروغ دےکر ملک میں مکانوں کی تعمیرکےساتھ نوکریاں بھی پیدا کی جا سکیں۔

سابق چیئرمین آباد عارف جیوا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تعمیراتی شعبے کے لیے ایسا پیکج دیا گیا جس سے کنسٹرکشن اندسٹری کو کافی فائدہ ہوا۔ 'جتنے پراجیکٹ گزشتہ دو سال میں شروع ہوئے اتنے پاکستان کی تاریخ میں نہیں بنے، خصوصا اسلام باد اور لاہور میں۔'

لیکن ان کا کہنا تھا کہ ملک کی معاشی حالت کی وجہ سے بینک اس طریقے سے عام آدمی کو فائنانس فراہم نہیں کر سکے جیسے کرنی چاہیے تھی۔

عارف جیوا کے مطابق 'کورونا کی لہر کے بعد سٹیل اور سیمنٹ سمیت دیگر اشیا مہنگی ہو گئیں اور تعمیر کا خرچہ ستّر سے اسّی فیصد تک بڑھ گیا جب کہ عام آدمی کی قوت خرید کم ہوئی۔ ان کے مطابق دوسری جانب بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے کنسٹرکشن اندسٹری میں بہت سرمایہ کاری کی جس کی ایک وجہ حکومت کی وہ سکیم بھی تھی جس کے مطابق سرمایہ کاری کا ذریعہ نہیں پوچھا گیا۔ اس سے نوکریاں بھی ملیں، مارکیٹنگ اور فائنانس والوں کی کھپت ہوئی۔' لیکن ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ آٹھ دس ماہ سے معاملات رکے ہوئے ہیں اور دیکھنا ہو گا کہ اگلی حکومت کیا کرتی ہے۔بلین ٹری منصوبہ
بلین ٹری سونامی یا ایک ارب درختوں کی شجرکاری کا آغاز خیبر پختونخوا حکومت نے سنہ 2014 میں کیا تھا۔ یہ ایک ارب درخت محکمہ جنگلات اور بنجر زمینوں کے 35,000 ہیکٹرز پر لگائے گئے۔

دو ہزار اٹھارہ میں اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے اس منصوبے کو وسعت دیتے ہوئے دس ارب درخت لگانے کا اعلان کیا جسے عالمی پزیرائی بھی ملی۔

اقوام متحدہ اور ورلڈ اکنامک فورم جیسے اداروں نے پاکستان کے اس منصوبےکو سراہا اور جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش اور سعودی عرب جیسے ممالک نے بھی اس طرح کے منصوبے اپنے ممالک میں شروع کرنےکا اعلان کیا۔

صحافی شبینہ فراز کے مطابق ماہر ماحولیات اور نباتات رفیع الحق کہتے ہیں کہ 'اس پروگرام نے ملکی اور عالمی سطح پر اتنی توجہ اور اہمیت حاصل کر لی ہے کہ اگر آئندہ تحریک انصاف اقتدار میں نہ بھی آ سکی تو جو بھی حکومت ہو گی اس پر اس منصوبے کی تکمیل کا عالمی دباﺅ موجود ہو گا اور موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر اس منصوبے کو ختم یا نظر انداز کرنا کسی بھی حکومت کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔'

احساس پروگرام اور پناہ گاہیں
غربت کے خاتمے کے لیے اقدامات کے سلسلے میں وزیراعظم نے 'احساس پروگرام' کے تحت 31 نکاتی ایجنڈاکےذریعے 115 پالیسی منصوبوں کا اعلان کیا۔

ان منصوبوں میں اثاثہ جات، بلاسود قرضوں کی فراہمی اور ہنرسازی کے پروگرام کے ساتھ پناہ گاہ شیلٹر ہومز کا بھی ایک اہم منصوبہ شامل تھا جس کے تحت وفاقی دارالحکومت، خیبرپختونخوا اور صوبہ پنجاب کے چند شہروں میں بےسہارا اور غریب افراد کے لیے 'پناہ گاہ مراکز' کا آغاز کیا گیا۔

ان پناہ گاہوں میں قیام کے ساتھ ساتھ تین وقت کھانا بھی مفت فراہم کیا جا رہا ہے۔

بی بی سی نامہ نگار عابد حسین سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر مراد سعید نے پہلے سال کے اختتام پر حکومت کی سب سے بڑی کامیابی وزیراعظم کے 'پناہ گاہ' پروگرام کو قرار دیا تھا۔

اس وقت ان کا کہنا تھا کہ 'ہماری حکومت نے جب ذمہ داری سنبھالی تو ہماری کوشش تھی کہ ہم مدینہ کی ریاست کی طرز پر پاکستان کو بنائیں اور اس سلسلے میں ہمارا سب سے اہم قدم پاکستان کے بڑے شہروں میں جگہ جگہ 'پناہ گاہ' پروگرام کے تحت غریب عوام کو چھت فراہم کرنا ہے جس کی مدد سے کوشش ہے کہ کوئی شخص کھلے آسمان کے نیچے نہ سوئے۔'

ساتھ ہی ساتھ خواتین کو انکم سپورٹ پروگرام میں 'کفالت' پروگرام کے تحت بینک اکاؤنٹس، غریب اور نادار افراد میں راشن کارڈز اجرا اور تحفظ کے نام سے مالی مدد کے پروگرام شامل ہیں۔

بشکریہ۔ بی بی سی
واپس کریں