دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سال بدلا ہے ، نظام بھی بدلو۔محمد عباس شاد، لاہور
No image آج پھر ہمیں گردشِ ایام نے بہت سی توقعات کے ساتھ ایک نئے سال کی دہلیز پر لاکھڑا کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ انسانی زندگی کی خواہشات کا لنگر توقعات کے ساتھ بندھا ہوا ہے، لیکن عمل اور نتائج کی زندگی میں حقیقت کی ناقابلِ تردید اہمیت ہے، جسے کسی بھی قیمت پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری قومی زندگی کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہماری زمامِ اقتدار سنبھالے طبقے اس معاملے میں اتنے غافل ہیں کہ ان کے کانوں تک زمانے کی کوئی بھی آواز پہنچ نہیں پارہی۔ اِبلاغیات کے شعبے کی حیرت انگیز ترقیات کے باوصف کہ جہاں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آوازیں ہوا کے دوش پر سفر کرتی اربوں انسانوں سے شرفِ سماعت حاصل کرتی ہیں، لیکن سائنس کی دنیا ابھی تک ایسی کسی ایجاد سے قاصر ہے، جس کی بہ دولت پاس بیٹھے انسانوں کے دلوں کے کانوں میں کوئی آواز اُتاری جاسکے۔ انسانی جماعتوں کی یہ غفلت شعاری کوئی نئی بات نہیں۔ انسانی تاریخ ایسی غافل جماعتوں سے بھری پڑی ہے، جن کے دل کے کان ناموسِ الٰہی کے سامنے بھی اپنی ہٹ دھرمی چھوڑنے کو تیار نہیں تھے اور سنتِ الٰہی نے ان کی بدبختی کے فیصلے صادر کردیے۔

ہمارے ملک کے وہ طبقے، جن کا جُوا قیامِ ملک ہی سے قوم کے گلے میں پڑا ہوا ہے، وہ غفلت کی ایسی گہری نیند اور مفاد پرستی کے ایسے نشے میں مدہوش ہیں کہ ان کے ہاں چیزوں کے مفہوم ہی تبدیل ہوچکے ہیں۔ انھوں نے ایک مخصوص طبقے کے مفاد کو قومی مفاد، ایک جماعت کے اقتدار کو قومی حکومت اور اپنی خواہشات کی تکمیل کو فطرت کے تقاضوں کا جواب سمجھ لیا ہے۔ وہ اس ڈگر پر گزشتہ پوّن صدی سے کان بند کیے محوِ سفر ہیں۔ ملک کی جماعتیں آپس میں دست و گریبان ہیں۔ ادارے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔ آئین و دستور کی شِقیں تک اپنے اپنے مطلب کے مطابق بانٹ لی گئی ہیں۔ ہرجماعت کے حق میں جانے والی شِقوں کی دھجیاں اس جماعت کے ہاتھ میں اور باقی بچا ہوا دستور پاؤں کے نیچے ہے۔ بھلا دستوری دستاویزات ایسی قوموں کی رہنما ہوتی ہیں؟ اور یہی معاملہ مذہبی سیاست کا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اپنے عقیدت مندوں کے سامنے قرآن کے صرف اسی حصے کی تلاوت کرتے ہیں، جس سے ان کے مؤقف کی تائید ہوتی ہے۔ باقی کو سامنے نہیں لاتے:
أفَتُؤۡمِنُونَ بِبَعۡضِ ٱلۡكِتَٰبِ وَتَكۡفُرُونَ بِبَعۡضٖۚ فَمَا جَزَآءُ مَن يَفۡعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمۡ إِلَّا خِزۡيٞ فِي ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَاۖ وَيَوۡمَ ٱلۡقِيَٰمَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰٓ أَشَدِّ ٱلۡعَذَابِۗ وَمَا ٱللَّهُ بِغَٰفِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُونَ (-2 البقرہ: 85)
(تو کیا تم اللہ کے بعض احکامات کو مانتے ہو اور بعض سے انکار کرتے ہو؟ تو جو تم میں ایسا کرے، اس کا بدلہ دُنیوی زندگی میں ذلت و رُسوائی کے سوا اَور کیا ہے۔ اور قیامت کے دن انھیں شدید ترین عذاب کی طرف لوٹایا جائے گا اور اللہ تمھارے اعمال سے بے خبر نہیں۔)
کسی قوم پر دنیا میں ذلت اور رُسوائی کا سبب اس کے سوا اَور کچھ نہیں ہوسکتا کہ جب وہ قوم سچائی اور اُصولوں کی پاسداری چھوڑ دے تو اس وقت دنیا میں اس پر جگ ہنسائی کا دور شروع ہوجاتا ہے۔اس وقت ہمارے ہاں کوئی اصول نہیں، بلکہ اُصولوں کی پاسداری کو دقیانوسی عمل سمجھا جاتا ہے۔ اس کی جگہ موقع پرستی اور مفاداتی اُصولوں نے لے رکھی ہے۔ ہماری قومی سیاست سے لے کر عام انفرادی رویوں تک موقع پرستی ہمارے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے۔ گویا ہماری یہ حالتِ زار اجتماعی حوالے سے ہے۔

علاوہ ازیں اس وقت ہمارا سسٹم بالکل ننگا ہو چکا ہے، لیکن پھر بھی ہمارے ہاں نظام کی تبدیلی کے بجائے پُرانے سسٹم کو بچانے کے لیے ہمیشہ کی طرح عارضی رنگ و روغن سے کام لیا جا رہا ہے۔ ہمارے سیاسی نظام میں سیاست دانوں کے نظریات نہیں، مفادات ہوتے ہیں۔ جہاں ایک نام نہاد سنیئر سیاست دان مین سٹریم میڈیا میں بیٹھ کر سیاسی پارٹیوں پر جرنیلوں کے احسانات کی فہرست پیش کرے، اسے آپ مفادات کی سیاست نہیں کہیں گے تو اَور کیا کہیں گے۔
یہ نام نہاد جمہوری نظام اپنے ہی بنائے ہوئے اُصولوں پر نہیں قائم رہتا ہے۔ جمہوریت کا اس سے بڑا سنگین مذاق اَور کیا ہوسکتا ہے کہ نیشنل اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں رکھنے والی پارٹی اقتدار سے باہر ہے اور بھان متی کا کنبہ اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے۔ ایسے ہی پنجاب میں صرف دس سیٹیں رکھنے والی جماعت کے وزیرِاعلیٰ کی حکومت ہے اور ایک سو اَسّی سیٹوں والی پارٹی ان کے ہاتھوں بلیک میل ہورہی ہے۔

چند افراد ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے منظورِ نظر ہیں۔ پورا سسٹم ان کے گرد گھوم رہا ہے۔ نہ یہاں ووٹ کی کوئی اہمیت ہے اور نہ جمہوریت کسی درد کی دوا ہے۔ بس لابنگ کی سیاست ہے، جو جتنی ہوشیاری سے لابنگ کرسکے، وہی کامیاب سیاست دان ٹھہرا۔ اس میں نہ کسی اُصول کی پاسداری ہے اور نہ ضابطے کی پابندی ہے۔ سب ضابطے اور اُصول مفاداتی سیاست، لوٹ مار کی معیشت، ناانصافی کی عدالت اور بددیانتی کی حد تک مالی خیانت کے گرد گھوم رہے ہیں۔
ایسے حالات میں ملک میں موجود سیاسی سرگرمیاں سوائے چند نام کے سیاسی خاندانوں کی خوشنودی کے اَور کچھ نہیں ہیں۔ یہ سیاسی ہلچل نہ تو نظام کی تبدیلی کی جدوجہد سے تعلق رکھتی ہے اور نہ ہی عوامی حقوق کی بحالی سے اس کا کوئی تعلق ہے۔ لہٰذا ایسے حالات میں موجودہ سیاست کو وقت دینے سے بہتر ہے کہ نوجوانوں کی تربیت پر وقت خرچ کیا جائے اور انھیں نظام کی تبدیلی کے بغیر پاکستان کے مستقبل کا یہ نقشہ دکھانا چاہیے کہ اگر نوجوانوں نے نظام کی تبدیلی کی راہ اختیار نہ کی تو یہاں کیا حالات ہوسکتے ہیں۔ معاشرہ بگاڑ کی کس حد تک پہنچ سکتا ہے۔
واپس کریں