دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خان صاحب، معیشت اور انتخابات!عرفان صدیقی
No image تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان صاحب کا کہنا یہ ہے کہ معاشی اَبتری دور کرنے کا واحد نسخہ ہائے کیمیا فی الفور نئے انتخابات کا انعقاد ہے۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر اپنے نشری خطبات میں ہر صاحبِ اِستطاعت ادارے بالخصوص روایتی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو سمجھا رہے ہیں کہ انتخابات نہ کرائے گئے تو نہ صرف ملک دیوالیہ ہوجائے گا بلکہ خدانخواستہ پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچے گا۔ اَپنے مطالبے میں سوزوگداز بھرتے ہوئے انہوں نے مذکورہ قوتوں کو اللہ کا واسطہ بھی دیا ہے۔ اِنتخابات تو بہرحال ہونے ہی ہیں۔ اپریل مئی میں ہوں یا ستمبر اکتوبر میں۔ اِنتخابات کے نتائج کی دو صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ خان صاحب کی جماعت بھاری اکثریت سے جیت جائے اور زمام اقتدار ایک بار پھر اُن کے ہاتھ آجائے۔ دوسری صورت یہ کہ ’’چور‘‘ اور ’’ڈاکو‘‘ اکثریت حاصل کرلیں اور تختِ حکمرانی پہ آبیٹھیں۔ دوسری صورت کا حَل تو خان صاحب کے پاس ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ وہ دھاندلی کا الزام لگائیں گے، اسمبلیوں سے مستعفی ہوجائیں گے۔ کنٹینر کی تزئین وآرائش کرکے کسی لانگ مارچ پر روانہ ہوجائیں گے اور ’’نئے انتخابات‘‘ کے مطالبے سے ایک بار پھر زمین وآسمان میں اِرتعاش بپا کردیں گے۔ مسئلہ پہلی صورت کا ہے یعنی اگر وہ انتخابات جیت کر وزیراعظم ہوگئے تو معیشت کا کیا بنے گا؟ 2018 کے بعد تو وہ پیہم یہ جواز دیتے رہے کہ ہمیں حکومت کا تجربہ نہیں تھا۔ اَب کے یہ بہانہ بھی نہ رہے گا۔ بظاہر خان صاحب کے بقول انہیں حکومت چھن جانے کا دُکھ نہیں، یہ غم کھائے جارہا ہے کہ سب سے بڑی عالمی اور سب سے مؤثر داخلی طاقت نے باہَم دِگَر گٹھ جوڑ کرکے، پاکستانی معیشت کو تباہی کے گڑھے میں پھینک دیا۔ اِنتخابات وہ اِس لئے چاہتے ہیں کہ اُن کی مقبولیت کا تُند رَو ریلا تمام مخالفین کو بہا لے جائے گا۔ وہ اپنے ماہرین اقتصادیات کے جلو میں وزیراعظم ہائوس کا رُخ کریں گے ،پھر دودھ اور شہد کی وہ نہریں کناروں سے چھلکنے لگیں گی جو اُن کے رخصت ہوتے ہی سوکھ گئی تھیں۔

حقائق کچھ اور کہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت مئی2018ءمیں رخصت ہوئی۔ منتخب وزیراعظم کو ایک برس پہلے ہی بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جُرمِ قبیح میں عہدے سے معزول کرکے پابندِ سلاسل کیاجاچکا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے پورے عہدِ حکومت میں جو کچھ خان صاحب، اُن کے سرپرستوں، حواریوں اور سہولت کاروں نے کیا، اُس کی مثال ہماری چیچک زدہ تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔اِس کے باوجود مئی2018 کا موازنہ اپریل2022 سے کیاجائے تو کوئی ابہام باقی نہیں رہے گا کہ خان صاحب کے عہد میں معیشت پر کیاگزری۔فتنہ پرداز دھرنوں، سول نافرمانی، بجلی کے بل ادا نہ کرنے اور بیرون ملک سے رقوم ہنڈی کے ذریعے بھیجنے کے اعلانات، چینی صدر کا راستہ روکنے جیسے اقدام، ایکسٹینشن کے شیش ناگ کی پھنکار، مشرف پر مقدمے کے اضطرابیے (IRRITANT) اور ڈان لیکس جیسے گرداب کے باوجود معیشت کی شرح نمو6.1فیصد تھی، روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مستحکم رہا، زرمبادلہ کے ذخائر اطمینان بخش تھے، بجلی اور گیس کے نرخ ناقابل برداشت نہ تھے، مہنگائی کی شرح تین چار فی صد سے اوپر نہ گئی، سی پیک کی صورت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری آئی، آئی۔ایم۔ایف پروگرام مستقیم راہوں پر چلتا رہا، عالمی ادارے پاکستان کے بہتر معاشی مستقبل کے زائچے بنانے لگےلیکن نوازشریف کو عین اُس اسکرپٹ کے مطابق فارغ کردیاگیا جو ایک سال قبل ایک غیرملکی میگزین نے شائع کیا تھا۔یہ تھی ایک ایسی سازش جس کا نشانہ بظاہر تو نوازشریف تھا لیکن اصل میں پاکستانی معیشت لہولہان ہوگئی اور آج تک زخموں کی مرہم کاری نہیں ہوپارہی۔

اگست 1947 سے اگست 2018 تک (جب عمران خان نے حکومت سنبھالی) پاکستان پر قرضوں اور واجب الادا ذمہ داریوں کا مجموعی حجم تیس ہزار ارب روپے تھا۔ تحریک انصاف نے چوالیس ماہ میں اتنا ہی، یعنی تیس ہزار ارب روپے کا مزید بوجھ قوم کے سر پر لاد دیا۔2018 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہوئی تو بجلی کے شعبے میں گردشی قرضہ گیارہ سو ارب روپے تھا۔ خان صاحب کے چوالیس مہینوں میں ایک ارب روپے روزانہ کی شرح سے بڑھ کر یہ قرضہ پچیس سو ارب روپے ہوگیا۔ گیس کے شعبے کا قرضہ 350 ارب روپے سے بڑھ کر 1400 ارب روپے ہوگیا۔ ہر آن بھنور میں غوطے کھاتی، نوازحکومت تیرہ ہزار میگاواٹ بجلی دے کر توانائی کے بحران کو سنبھالا دے گئی۔ خان صاحب اور اُن کے مصاحبین سے تیس ہزار ارب روپے کے قرضوں کےبارےمیں پوچھا جائے کہ اکہتر برس جتنا قرض چڑھا کر تم لوگوں نے قوم کو کیا دیا؟ کوئی ایک منصوبہ ۔ صرف ایک؟ تو وہ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ نیا منصوبہ تو جانے دیں، سی پیک جیسے منصوبے کو غارت کردیا جو ملکی معیشت کو ایک بڑی جست دے سکتا تھا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ عمران خان، اپنے معیشت کُش عہد کو اقتصادی ترقی وخوش حالی کے عہد زریں سے تعبیر کرتے ہیں۔ اُن کا کمالِ فَن فقط یہ تھا کہ خودکشی کے عزم صمیم کا اعلان کرتے ہوئے ایک برس تک خودی کو بلند کرتے رہے لیکن عالمی مالیاتی ادارے تو کیا، کسی ساہو کار تک نے نہ پوچھا کہ ’’بتا تیری رضاکیا ہے۔‘‘ سو خود ہی، خودی کی میّت کاندھے پر لادے، آئی۔ایم۔ایف کی دہلیز پر سجدہ ریز ہوئے اور ایک ایسا غلامانہ معاہدہ کرآئے جس کی مثال ہماری پوری فقیرانہ بلکہ گداگرانہ تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔ جاتے جاتے اُس تھالی میں بھی چھید کرگئے اور مال دار روٹھی حسینہ کو منانے کا کام پی۔ڈی۔ایم کو سونپ گئے۔ انتخابات ہی عروسِ معیشت کی حِنا بندی کرسکتے تو آج یہ حسینہِ عالم ہوتی۔ 1970سے اب تک گیارہ عام انتخابات ہوچکے ہیں۔ پہلے انتخابات پاکستان کو دولخت کرگئے۔ دوسرے گیارہ سالہ مارشل لا دے گئے۔ 2018 کے آخری انتخابات کے افق سے عمران خان صاحب کا آفتابِ جہاں تاب طلوع ہوا اور قوم نے جانا کہ ’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی۔‘‘ بلاشبہ ہر دستوری اور ضابطہ بند جمہوریت کیلئے انتخابات ناگزیر ہیں۔ یہ سال انشاء اللہ انتخابات کا سال ہے۔

خان صاحب کو اگر پاکستان اور مشکل میں گھری معیشت سے واقعی ہمدردی ہے تو وہ اقتدار کے شاداب اور پُربہار موسموں کی روح پرور یادوں سے نکل کر خشک سالی کی خزاں رسیدہ رُتوں میں بھی زندہ رہنا سیکھیں۔ انکشافات اور اعترافات کی اِس برکھا رُت میں قوم کو بتائیں کہ اپنے عہدِ اقتدار میں وہ معیشت کے بجائے ’’اپوزیشن‘‘ کو سب سے بڑا مسئلہ کیوں سمجھتے رہے؟ ساری توانائیاں معیشت کی چولیں کسنے کے بجائے، حریفوں کی مُشکیں کسنے پہ کیوں لگائے رکھیں؟
واپس کریں