دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان کی آٹو پالیسی ۔کوئی ادارہ نہیں پوچھنے والا۔
No image 2012 کے دسمبر میں ڈالر 97 روپے کا تھا اور آج 183 روپے کا ہے.. اس لحاظ سے اگر ڈالر کی قیمت بڑھنے کے عزر کو کچھ دیر کو مان بھی لیا جائے تو ایک ہونڈا سوک کی قیمت قریب 34 لاکھ سے زائد نہیں ہونا چاہیے تھی... جو کہ اب 62 لاکھ روپے ہے..
کاروں کے 70 سے 80 فیصد پارٹس ملک میں ہی تیار ہوتے ہیں.. صرف انجن بیرون ملک سے منگوائے جاتے ہیں... لہذا ایک طرف تو ڈالر کی قیمت بڑھنے کو جواز بنا کر کاروں کی قیمت بڑھانا بالکل ناجائز منافع خوری ہے... تو دوسری طرف ڈالر کی قیمت بڑھنے اور کاروں کی قیمت بڑھنے کی شرح کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان دونوں کا دور دور تک کوئی correlation بنتا ہی نہیں.. یعنی ڈالر کی قیمت میں 8 سے 10 روپے اضافے پر کار کی قیمت میں ہر بار 3 سے 4 لاکھ روپے کا اضافہ بار بار کیا گیا.... مطلب جھوٹ پر جھوٹ, کہ ڈالر بڑھنے پر قیمت بڑھانی پڑی...

دوسری طرف قیمتیں ہوشرباء طریقے پر بڑھاتے چلے گئے, اور کوالیٹی گھٹیا سے گھٹیا تر کرتے چلے گئے... جس کی ویڈیوز آپ تواتر سے یو ٹیوب اور فیس بک پر دیکھتے ہوں گے...
دوسری طرف حکومت کو بھی چسکا لگا ہے, کہ جو چیز عوام خریدنے پر مجبور ہوں, اس پر ٹیکس بڑھاتے جاؤ.. صحیح سکھہ شاہی لگی ہے وطن عزیز میں... کمپیٹیشن کمیشن اور انجنیرنگ بورڈ جیسے ادارے, جو یہ سب عوامل ریگولر کرتے ہیں.. یقینا" کرپشن کی آماجگاہ ہیں... کوئی عدالت، کوئی ادارہ نہیں پوچھنے والا.. کسی قسم کا کنزیومر پروٹیکشن کا میکنزم نہیں..

انجنیرنگ ڈویلیپمنٹ بورڈ جو میاں نواز شریف کی حکومت نے تحلیل کر دیا تھا, اور 2016 میں نئی آٹو پالیسی کا اعلان کیا تھا... موجودہ حکومت نے آتے ہی کار مینیفیکچررز مافیا کی ایما پر اس بورڈ کو دوبارہ فعال کر دیا...
واپس کریں