دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خود کو بدلو۔شعیب ملک
No image جو انسان بچپن سے یہی سنتا آ رہا ہو کہ یہ دنیا عارضی ہے اور یہ مصیبتوں اور دکھ کی جگہ ہے، اور اس دنیا کا سب کچھ فضول اور بے کار ہے، تو ایسا انسان مایوس ہی رہتا ہے۔ پھر اپنے مسائل کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کرنے کی بجائے ایک روبوٹ کی طرح عبادات کی ایک روٹین میں پناہ ڈھونڈتا ہے تو نتیجتاً اس کے لیے اس جہان میں کوئی خوشی یا سکون ممکن ہی نہیں۔

موسیقی، رقص، قہقہے، ثقافت، فن، شاعری، فلسفہ سائنس، تحقیق، جستجو، مسکراہٹیں، محبت یہ سب زندگی کے استعارے ہیں اور جشن کی طرح بسر کئے جاتے ہیں. لیکن جشن اور استعارہ مردہ معاشروں میں گناہ تصور کیا جاتا ہے
نوجوان نسل کو تباہ کرنے کا ایک یقینی راستہ یہ ہے کہ انہیں یکساں سوچ رکھنے والوں کی عزت و تکریم اور مختلف سوچ رکھنے والوں کی حقارت و تذلیل سِکھائی جائے ۔نِطشے

کسی قوم کے زوال کی اس سے بڑی نشانی کوئی ہوسکتی ہے کہ منبر پر بیٹھا شخص جو شاید ہی کبھی اسکول گیا تھا گا کر یا رو کر لمبی لمبی پھینک رہا ہو مافوق الفطرت کہانیاں سنا رہا ہو اور گریجویٹس ،ماسٹر ،ٹیچرز ،بیرسٹرز ،انجنئیرز ،ڈاکٹرز ،پی ایچ ڈیز سر جھکائے اتنی ہی مدہوشی کے عالم میں سن رہے ہوں کہ انکے ذہن میں کوئی سوال نہ اٹھے،اور اگر اٹھے بھی تو وہ اسے شیطان کا وسوسه جان کر جھٹک دیں ۔
واپس کریں