دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مسلم لیگ ق کے حکومت، کا ساتھ دینے کے پیچھے وجہ کیا؟
No image پیر کے روز اسلام آباد میں بنی گالہ میں وزیراعظم عمران خان اور سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان ملاقات میں پنجاب کے وزیراعلٰی عثمان بزدار سے استعفٰی مانگ لیا گیا اور وزیرِاعظم نے پرویز الٰہی کو اپنا وزارتِ اعلٰی کا امیدوار مقرر کر دیا تو ادھر قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے پریس کانفرنس میں کہا کہ بی اے پی کے چار ایم این اے متحدہ اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔
صوبہ پنجاب کے حوالے سے پیشرفت اس وقت سامنے آئی جب پیر کی صبح متحدہ حزبِ اختلاف کی جانب سے وزیرِاعلٰی عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پنجاب اسمبلی میں جمع کروا دی گئی تھی۔ اس سے قبل اتوار کے روز حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے ایک وفد نے اسلام آباد میں ق لیگ کی قیادت سے ملاقات کی تھی۔

اس ملاقات کے حوالے سے خبریں یہ آ رہی تھیں کہ ’ن لیگ اور ق لیگ کے معاملات طے پا گئے تھے‘ تاہم وزارتِ اعلٰی کی حکومتی پیشکش قبول کرنے کے ساتھ ہی ق لیگ کے کیمپ سے طارق بشیر چیمہ کھل کر سامنے آئے اور انھوں نے نہ صرف وفاقی کابینہ سے استعفٰی دینے کا اعلان کیا بلکہ تحریک عدم اعتماد میں وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف ووٹ دینے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔
ان کے اس اعلان کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ ق لیگ کی قیادت میں چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے وزیرِاعظم کی پیشکش قبول کرنے پر اختلاف پایا جاتا تھا اور ’چوہدری شجاعت حسین اس فیصلے کے حق میں نہیں تھے‘ تاہم ق لیگ کے ترجمان غلام مصطفٰی ملک نے ایک پیغام میں ق لیگ میں اختلافات کی تردید کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جماعت میں تمام فیصلے مشاورت سے ہوتے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین کے اعتماد اور اجازت کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔‘

پیر کی رات تک سرکاری طور پر وزیرِاعلٰی پنجاب عثمان بزدار کا استعفٰی سامنے نہیں آیا تھا۔ ان کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات حسان خاور نے اس حوالے سے سوال کا جواب نہیں دیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا چوہدری پرویز الٰہی صوبہ پنجاب میں وزیراعلیٰ کا انتخاب جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ کیا وہ وزیرِاعظم عمران خان کی مرکز میں تحریکِ عدم اعتماد میں خاطر خواہ مدد کر پائیں گے؟ اور کیا بلوچستان کے اراکین اسمبلی ملک کے سیاسی منظر نامے میں تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں؟
تو پہلے بات کرتے ہیں صوبہ پنجاب کی۔ یوں تو پنجاب اسمبلی میں حکومتی جماعت پی ٹی آئی کے پاس 183 اراکین موجود ہیں اور ق لیگ کے پاس 10 اراکین ہیں تاہم پی ٹی آئی کے اندر گروپوں کی صورت میں ’ناراض‘ اراکین کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔
وزارتِ اعلٰی کا انتخاب کتنا بڑا چیلنج ہو سکتا ہے؟
چوہدری پرویز الٰہی نے ’اپنے اوپر ایک نہیں دو چیلنج لے لیے ہیں۔ ایک تو انھیں وزیرِاعلٰی کا انتخاب جیتنا ہو گا اور دوسرا پی ٹی آئی کے ناراض اراکین کو واپس لانا ہو گا۔‘
چوہدری پرویز الٰہی ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ وہ وزارتِ اعلٰی کا انتخاب جیت جائیں۔
تاہم جس وقت پر حکومت نے انھیں وزارتِ اعلٰی کی پیشکش کی ’یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس وقت چوہدری پرویز الٰہی وزیرِاعظم عمران خان کی مرکز میں کتنی مدد کر پاتے ہیں۔‘
’اتنے کم وقت میں اور ایسے مرحلے پر جب تحریکِ عدم اعتماد پیش کی جا چکی ہے تو انھیں منحرف اراکین پر بھی اپنی توجہ مرکوز کرنا ہو گی اور حکومت کی دوسری اتحادی جماعتوں سے بھی وزیرِاعظم کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرنا پڑے گی۔‘
اب یہ دیکھنا ہو گا کہ جب وہ حکومتی امیدوار بن کر سامنے آتے ہیں تو کیا پھر بھی جہانگیر ترین گروپ یا دوسرے ناراض اراکین ان کی حمایت کریں گے۔
واپس کریں