دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پی ٹی آئی جلسہ: کیا سپورٹ بیس اب بھی برقرار ہے؟
No image پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا، جس سے کئی حلقوں میں یہ تاثر قائم ہوا ہے کہ عمران خان کی سپورٹ بیس یعنی، کے پی، آج بھی اس کے ساتھ ہے اور پنجاب کے بھی کئی علاقے اس کی حمایت میں تیار نظر آتے ہیں۔حکومت کی کارکردگی اور سازش کا انکشاف

جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے اپنی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے لمبی تقریر کی۔ انہوں نے احساس پروگرام، صحت کارڈ، بلا سود قرضے، کامیاب نوجوان پروگرام، تعمیرات کے شعبے کی ترقی، بڑھتی ہوئی برآمدات، اقوام متحدہ کی قرارداد، آزاد خارجہ پالیسی سمیت کئی محاذوں پر کامیابی کا دعوی کیا۔

لیکن جو بات ملکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنی، وہ ان کی تقریر کا وہ حصہ تھا جہاں انہوں نے اپنی حکومت کے خلاف ایک بیرونی سازش کا انکشاف کیا۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ عموماً لکھی ہوئی تقریر نہیں پڑھتے لیکن کیونکہ یہ ایک حساس معاملہ ہے وہ نہیں چاہتے کہ جذبات میں ان کے منہ سے کوئی ایسی بات نکل جائے جو ملکی مفاد کے خلاف ہو۔

جلسے کے شرکا کی اکثریت صوبہ خیبر پختونخواہ سے تھی اور اس میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد تھی۔ شرکاء کی دوسری بڑی تعداد پنجاب سے تھی جب کہ سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے بھی پی ٹی آئی کے حامی اس جلسے میں موجود تھے۔

عمران خان کا دعوی تھا کہ سابقہ حکمرانوں کی کرتوتوں کی وجہ سے ملک کو دھمکیاں ملیں اور یہ ایسے لوگوں کی ملی بھگت سے ہوا جو ملک میں موجود ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اپنے ہی لوگوں کی ملی بھگت سے ملک میں حکومتیں تبدیل کی گئیں۔ انہوں نے اپنی خارجہ پالیسی کا ذوالفقار علی بھٹو کی خارجہ پالیسی سے موازنہ کیا اور کہا کہ ان کے ذوالفقار علی بھٹو سے اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن وہ ایک خود دار رہنما تھا اور یہ کہ جب انہوں نے ایک آزاد خارجہ پالیسی بنائی تو اس کے خلاف تحریک چلائی گئی اور ایسے حالات پیدا کیے گئے، جس میں اس کا تختہ الٹ کر انہیں پھانسی دی گئی۔
انہوں نے پی پی پی اور ن لیگ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ پی پی پی آج بھٹو کے قاتلوں سے دوستی کر رہی ہے اور ان کا دفاع کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے کئی سیاسی حلقوں میں یہ تصور پا یا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد یا نو ستاروں کی تحریک کو امریکہ اور مغرب کی حمایت حاصل تھی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ آج بھی ویسے ہی حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ملک کی خارجہ، پالیسی پر باہر سے اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ''ہمیں اس سازش کا گزشتہ کچھ مہینوں سے علم ہے اور اس کے لئے بیرونی پیسہ استعمال ہو رہا ہے۔ کوششیں کی جا رہی ہیں کہ بیرونی پیسے کی مدد سے حکومت کو تبدیل کیا جائے۔ بہت سارے لوگ اس سازش کا نا دانستہ طور پر ساتھ دے رہے ہیں لیکن کچھ دانستہ طور پر بھی اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔‘‘

وزیر اعظم کا دعوی تھا کہ ان کے پاس اس کا تحریری ثبوت موجود ہے۔

عمران خان نے خبردار کیا کہ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا دور نہیں ہے۔ ''یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ کچھ بھی چھپایا نہیں جا سکتا۔ اب پاکستان کے لوگ بیدار ہیں اور وہ کسی کی غلامی قبول نہیں کریں گے۔‘‘

عمران خان نے امریکہ اور مغرب کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ سب سے دوستی چاہتے ہیں لیکن یہ کہ پاکستانی قوم غلامی تسلیم نہیں کرے گی۔

سپورٹ بیس اب بھی قائم ہے

پاکستان تحریک انصاف کی سب سے پہلی حکومت خیبر پختونخواہ میں قائم ہوئی تھی۔ جلسے کے کئی شرکاء سے بات چیت کرنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کی سپورٹ بیس اب بھی قائم ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو صحت کارڈ، احساس پروگرام، تعلیمی وظائف، پولیس کے نظام میں بہتری، افسر شاہی کے رویئے میں تبدیلی، اساتذہ کی وقت پر اسکول آمد ان چند عناصر میں سے ہیں، جنہیں عوام نے سراہا۔

مثال کے طور پر ڈی ڈبلیو نے جن افراد سے بات چیت کی سب نے ہی صحت کارڈ کا ذکر کیا۔ شکر گڑھ پنجاب سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ایک سپورٹر محمد فیصل نے عمران خان کے مذہبی رویئے کی تعریف کی اور اسے اقوام متحدہ میں اسلاموفوبیا کے حوالے سے بات چیت کرنے پر خراج تحسین پیش کیا۔

کراچی سے آئے ہوئے ایک پینسٹھ سالہ بزرگ کلم الدین کا کہنا تھا کہ سندھ میں صحت کارڈ نہیں ہے اور آ کے دیکھیں کہ وہاں عوام کی کیا حالت ہے۔ نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے رب نواز خٹک کا کہنا تھا کہ ان کے صوبے میں پولیس کا نظام بہتر ہوا ہے۔ اسکولوں کی حالت پر فرق پڑا ہے۔ صحت کارڈ سے غریب آدمی کے لئے آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ جب کہ رشوت ستانی بھی بہت کم ہوئی ہے۔

تعداد پر بحث

پی ٹی آئی نے اس جلسے میں دس لاکھ افراد لانے کا دعوی کیا تھا۔ پارٹی کا اب بھی یہ اصرار ہے کہ یہ تعداد لاکھوں میں تھی لیکن کئی ناقدین کے خیال میں پریڈ گراونڈ کی گنجائش بیس سے پچیس ہزار ہے۔ سوشل میڈیا پر زیادہ تر صحافیوں کی رائے میں یہ مجمع چالیس ہزار کے قریب تھا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے خطاب کے وقت پریڈ گراونڈ بھرا ہوا تھا جب کہ لوگ قریبی بریجیز سے بھی اس جلسے کو دیکھ رہے تھے۔ پریڈ گراونڈ کے باہر سٹرکوں پر بھی عوام کی ایک بڑی تعداد تھی۔

ناقدین کے خیال میں اس جلسے میں دس لاکھ افراد تو نہیں تھے لیکن یہ اسلام آباد میں ہونے والے جلسوں میں ایک بہت بڑا جلسہ تھا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ اب تک اسلام آباد میں ہونے والے جلسوں میں سب سے بڑا جلسہ تھا۔

مریم نواز کا ردعمل

عمران خان نے تقریر کے دوران جب سازش کا انکشاف کیا تو انہوں نے نواز شریف کا نام لئے بغیر کہا کہ انہیں علم ہے کہ لندن میں بیٹھا ایک شخص کس کس سے ملتا ہے۔ ''قوم جاننا چاہتی ہے کہ لندن میں بیٹھا ہوا شخص کس کس سے ملتا ہے۔‘‘

مریم نواز نے اس الزام پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے والد یا پارٹی رہنما جس سے بھی ملتے ہیں، ملکی مفاد میں ملتے ہیں۔ مریم نے جلسے کی تعداد کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے اور دعوی کیا کہ عمران خان دس ہزار لوگ بھی جمع نہیں کر سکے۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
واپس کریں