دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اسرائیل میں امریکہ، اور چار عرب ممالک کے اجلاس کا بھارت کے لیے کیا معنی ہے؟
No image گذشتہ کچھ برسوں سے اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ اب چار عرب ممالک کی ایک اہم کانفرنس اسرائیل میں منعقد ہو رہی ہے جس میں شرکت کے لیے امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن بھی اسرائیل پہنچ چکے ہیں۔
متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور مصر کے وزرائے خارجہ اس کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ اسرائیل اتنے سارے عرب ممالک کے سینیئر عہدیداروں کے اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔
یہ اجلاس اسرائیل کے صحرائی خطے نیگیو میں ہو رہا ہے اور ایران سے جوہری مذاکرات اور یوکرین میں جاری جنگ پر بات بھی متوقع ہے۔

امریکہ روس کو تنہا کرنے کی کوشش میں عرب ممالک کی حمایت چاہتا ہے۔
مگر مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک روس پر سخت پابندیوں کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ اُنھیں اس سے گندم کی درآمد متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
یروشلم سے بی بی سی نامہ نگار یولینڈے نیل کے مطابق 'پہلی بار ہے کہ اسرائیل اتنی تاریخی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے مشترکہ مفادات مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے اتحادیوں کو ساتھ لا رہے ہیں۔'
متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش، مصر اور امریکہ کے وزرائے خارجہ کے ساتھ اس اجلاس میں اسرائیلی وزیرِ خارجہ یائر لاپید بھی ہوں گے۔
اس اجلاس کے انعقاد کا موقع اہم قرار دیتے ہوئے یروشلم میں موجود بی بی سی سے منسلک صحافی ہریندر مشرا نے کہا کہ 'یہ ٹائمنگ بہت اہم ہے کیونکہ مشرقِ وسطیٰ میں (تعلقات) نئے خطوط پر استوار ہو رہے ہیں۔ امریکہ کے تمام اتحادیوں میں افراتفری ہے، بالخصوص افغانستان سے متعلق امریکی فیصلے کے بعد یہ لوگ خود کو ایک طرح سے غیر محفوظ سمجھنے لگے۔ اس نقطہ نظر سے یہ اجلاس بہت اہم ہے بالخصوص اس لیے کیونکہ امریکہ بھی اس میں شامل ہے۔'
اُنھوں نے کہا کہ 'امریکی وزیرِ خارجہ کو ان تمام ممالک کو یقین دہانی کرواتے دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس کے علاوہ اس اجلاس میں معاشی سرگرمیوں اور ذرائعِ توانائی کے تحفظ پر بھی بات ہو گی۔'
ہریندر مشرا کہتے ہیں کہ 'اس اجلاس کی تزویراتی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ ایک طرح سے امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنی ساکھ کھو رہا ہے اور اس اجلاس سے لگتا ہے کہ وہ تمام ممالک کو متحد کرنا چاہ رہا ہے۔'
یہ اسرائیل کے لیے یوں اہم ہے کہ وہ کئی دہائیوں سے اس خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ آزادانہ تعلقات کے قیام کی کوششیں کر رہا ہے جو مسئلہ فلسطین سے بالاتر ہوں۔ اگر اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اسرائیل نے اس میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے۔
اس اجلاس کی علامتی اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ نیگیو شہر میں ہو رہا ہے جو اسرائیل کے پہلے وزیرِ اعظم ڈیوڈ بن گوریان کی جائے پیدائش ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل تمام مہمانوں کو ڈیوڈ بن گوریان کی یادگار پر لے جانا چاہتا ہے تاہم یہ اب تک پروگرام میں شامل نہیں ہے۔
یہ امریکہ کے لیے کیوں اہم ہے؟
اس وقت روس یوکرین جنگ کے باعث توانائی کے بحران کا خدشہ کافی زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی قیمتیں وہ معاملہ ہے جس پر مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک بالخصوص سعودی عرب اور دیگر اتحادی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
لیکن بھلے ہی اس وقت یوکرین اور روس کے معاملے پر سب سے زیادہ بحث ہو رہی ہے تاہم ایران کا معاملہ بھی اسرائیل کے لیے بہت اہم ہے۔ ایران اور اس سے ہونے والا جوہری معاہدہ اس اجلاس میں شریک تمام ممالک کے لیے اہم ہے کیونکہ وہ اسے سکیورٹی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ہریندر مشرا کہتے ہیں کہ 'کہا جا رہا ہے کہ امریکہ جوہری معاہدے پر نرم پڑ رہا ہے مگر اسرائیلی میڈیا کی رائے ہے کہ امریکہ ان ممالک کو یقین دلائے گا کہ اتحادی اس سے پریشان نہیں ہوں گے کیونکہ امریکہ ویسے بھی جوہری پروگرام کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔'
اسرائیل اور انڈیا کی مماثلت
یہ کانفرنس اسرائیل کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ ہریندر مشرا کہتے ہیں کہ روس اور یوکرین کے معاملے میں 'اسرائیل انڈیا جیسے ہی بحران کا شکار ہے۔ دونوں ہی ممالک کے لیے اپنا راستہ چننا مشکل ہے۔ امریکہ کا قریبی اتحادی ہونے کے باوجود اسرائیل خودساختہ طور پر ثالث کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ روس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔'
آج کی صورتحال کو دیکھیں تو روس کے پاس مشرقِ وسطیٰ کو غیر مستحکم کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ جس طرح روس شام میں موجود رہا ہے، اس کا اسرائیل پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔ اسرائیل انڈیا جیسی ہی صورتحال میں ہے مگر وہ کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح امریکہ بھی ناراض نہ ہو اور وہ ایسا کچھ کر جائے کہ دونوں ممالک کے درمیان مثبت کردار ادا ہو سکے۔ اسرائیل بظاہر امریکہ کا حامی نظر آ رہا ہے مگر یہ مکمل طور پر روس کے خلاف بھی نہیں۔'کیا اس اجلاس کا انڈیا سے کوئی تعلق ہے؟
اسرائیلی وزیرِ اعظم نفتالی بینیٹ اگلے ہفتے انڈیا کا دورہ کریں گے مگر اس سے قبل 30 مارچ کو اسرائیلی وزیرِ دفاع بھی انڈیا جائیں گے۔
ہریندر مشرا کے مطابق 'یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل اور اس اجلاس میں شریک دیگر ممالک انڈیا کو اپنے وسیع تر پڑوسی ممالک میں پہلے نمبر پر شمار کرتے ہیں۔'
'اگر آپ نوٹ کریں تو گذشتہ برس اکتوبر میں جب انڈیا کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر اسرائیل آئے تھے تو یہاں بھی ایک کواڈ جیسا اتحاد قائم ہوا تھا۔ یہ کہا گیا تھا کہ یہ مکمل طور پر اقتصادی نقطہ نظر سے ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی اس میں شرکت کی تھی۔ متحدہ عرب امارات کے وزیرِ خارجہ عبداللہ بن زاید النہیان بھی اس میں شریک تھے۔ اس کواڈ اتحاد میں امریکہ، اسرائیل، انڈیا اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ اس کے بعد اقتصادی تعاون بڑھانے پر گفتگو ہوئی۔'
انڈیا کے ان عرب ممالک کے ساتھ پہلے ہی اچھے تعلقات ہیں اور اسرائیل کے بھی ان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آ رہی ہے، سو یہ واضح ہے کہ یہ اجلاس مستقبل میں بھی انڈیا کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے اور بہت اہمیت کا حامل ہے۔
بشکریہ۔ بی بی سی




واپس کریں